پاکستان کے خارجہ اقتصادی تعلقات

November 03, 2022

پاکستان خلیجی ریاستوں کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ امارات کے حکمرانوں کی پہلی نسل کے پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے کیونکہ انھیں اپنے ملک کی جدید کاری کے سفر میں پاکستان سے بہت تعاون ملاتھا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بڑی تعداد میں پاکستانی کارکنوں کو افرادی قوت کے طور پرملازمتیں دیں۔ یہ دو ممالک آج بھی ہمارے ترسیلات زر کے چوٹی کے ذرائع ہیں۔ متحدہ عرب امارات بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے اور سعودی عرب اور کویت پیٹرولیم مصنوعات اور خام تیل فراہم کرنے والے ملک ہیں ۔ قطر کے پاکستان کے ساتھ ا یل این جی کے طویل المدتی معاہدے ہیں۔ جب بھی پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا ہوا، یہ ممالک اس کی مدد کرتے رہے ہیں۔

تاہم مستقبل میں ان تعلقات کومستحکم اور پائیدار بنانے کیلئے ان کا از سرنو تعین ضروری ہے کیوں کہ عالمی تعلقات یک طرفہ راستہ نہیں ہوتے ۔ متحدہ عرب امارات اور قطر، دونوں نے پاکستانی حکام سے اپنی حالیہ ملاقاتوں میں نقد رقوم ، اشیا یا کیش ڈپازٹ رکھوانے کی بجائے پاکستان کے مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ ان ریاستوں کا مصر میں 22 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ ہے جو خلیجی ریاستوں کی امداد کا روایتی وصول کنندہ رہا ہے۔ ہماری نئی حکمت عملی بھی یہی ہونی چاہیے ۔ سعودی عرب نے 2019 میں گوادر میں آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن تین سال گزرنے کے باوجود بیوروکریسی کا سرخ فیتہ، پیچیدہ اور وقت طلب طریقہ کار اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطوں کا فقدان اس میں حائل بڑی رکاوٹ ہیں۔

جنوبی ایشیا

معاشی تاریخ دانوں اور تجزیہ کاروں کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جنوبی ایشیا، جو چند دہائیاںقبل تک ایک واحد بڑی منڈی تھی، جس میں اشیا، خدمات، سرمایہ کاری اور ہنر مند وں کی فراوانی تھی ۔ نئے آزاد ممالک ، انڈیا اور پاکستان، یہ وراثت رکھتے تھے۔ لیکن یہ مشترکہ تاریخی، قانونی، ثقافتی اور انتظامی پس منظر رکھنے والا خطہ آج نہ ہونے کے برابر باہمی تعلقات رکھتا ہے ۔ دوسری طرف مشرقی ایشیا ئی ممالک بے حد مختلف پس منظر رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان مشترکہ تاریخی روابط نہ ہونے کے برابرتھے ۔لیکن وہ یورپی یونین کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ مربوط خطہ بن چکے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے ماہرین معاشیات کے درمیان کم و بیش اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ا ن کے باہمی تجارتی تعلقات دونوں کیلئے مساوی معاشی فوائد کا باعث بنیں گے ۔ ان کے معاشی تعلقات استوار نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیاسی تنائو ہے ۔

گزشتہ دہائی کے دوران انڈیا ایک اہم اقتصادی طاقت کے طور پر ابھرا ہے ۔پاکستان جو 1990 تک آگے تھا، جانی پہچانی وجوہات کی بناپر پیچھے رہ گیا جس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اقتصادی توازن میں یہ تبدیلی انڈیا اور پاکستان کے تعلقات پر بنیادی نظر ثانی کا مطالبہ کرتی ہے۔ خطے کی 80 فیصد آبادی اور 85 فیصد جی ڈی پی رکھنے والا انڈیا خطے کی بالا دست قوت ہے۔ لیکن پھرموجودہ جمود سے نکلنے کی بڑی ذمہ داری بھی اسی پرعائد ہوتی ہے۔انڈیا کو معاشی عروج کی طرف اپنا سفر جاری رکھنے کی جستجو میں محفوظ اور محفوظ سرحدوں، پرامن اور خوشحال پڑوسیوں اور ایک متحرک علاقائی ادارہ جاتی ڈھانچے کی ضرورت ہے جس میں چھوٹے ممالک کا کردار بھی شامل ہو۔ اگر اس کے ہمسائے مسلسل خوف و ہراس کا شکار رہیں گے تو اس کی اقتصادی طاقت بننے کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی ۔ جنوبی ایشیا میں ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت سے اس کی ذمہ داریاں، ردعمل اور طرز عمل اس کے سائز اور حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ حساب برابرکرنے کی ماضی کی پالیسی کی بجائے خطے کے دیگر ممالک کو سیاسی اور معاشی طور پر برداشت کرتے ہوئے بڑے پن ، کھلے ذہن اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ ایشیا کپ کے تحت کرکٹ کھیلنے کے لیے اگلے سال پاکستان آنے سے انکار ان مطلوبہ اوصاف کے منافی ہے۔ درمیانی اور طویل المدتی فوائد کو دیکھا جائے اقتصادی اہداف کا ممکنہ حصول بتاتا ہے کہ تعلقات کی بہتری میں انڈیا کو زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔

ایک ایسے ملک کیلئے جس کے پاس سب سے زیادہ ترقی پسند کاروباری افراد، سرکردہ دانشور، پیشہ ور، اختراع کار اور سائنس دان ہوں، عالمی سطح پر مسابقتی انسانی وسائل سب سے اوپر ہیں، قدرتی وسائل کی بہت زیادہ مانگ ہے، یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ وہ پیش قدمی سے گریزاں کیوں ہے۔ پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو معمول پر لانا علاقائی تجارت میں اضافہ، غربت میں کمی اور غذائی تحفظ کیلئے بہت سے امکانات کی کھڑکی کھولتا ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کے غیر ملکی اقتصادی تعلقات کو جیو پولیٹکس کی بجائے جیو اکنامکس کی طرف تبدیل کرنے کیلئے پاکستان کی ملکی اقتصادی پالیسیوں کو مستحکم اور پیش قیاسی، نظم و نسق اور گورننس کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام، پالیسیوں کے بارے میں غیر یقینی صورتحال اور مسلسل معاشی بحران موجودہ جمود سے کوئی تبدیلی نہیں لائے گا۔ ہم مسلسل امداد مانگ کر اپنی عزت کھونے والے ایک معمولی کھلاڑی رہیں گے۔ آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے ہمہ وقت مدد کے لیے رجوع کرنا مذکورہ بالا تجاویز پر پانی پھیر دے گا۔ ہمیں جس بڑے مسئلے کا سامنا ہے وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے تشخیص یا نسخوں کی کمی نہیں ہے بلکہ سوچ کی تنگ نظری ہے جہاں طریق کار کو نتائج پر فوقیت دی جاتی ہے۔ جب تک ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سمیت کسی بھی غیر ملکی کیلئے اندرونی نفرت کو دور نہیں کرتے ،ہم ترقی کی اس لہر سے مزید دور ہوتے جائیں گے جس سے دوسرے ترقی پذیر ممالک کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ہمیں دنیا کی مفلوج معیشتوں کی بجائے جنوبی کوریا، چین، انڈونیشیا، ملائیشیا اور ویتنام کو رول ماڈل کے طور پر اپنا نا چاہئے۔