پی ڈی ایم حکومت، چھ ماہ کا معاشی جائزہ

November 17, 2022

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو حکومت سنبھالے چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن بقول حبیب جالبؔ’’ وہی حالات ہیں فقیروں کے ... دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے۔‘‘ میں یہ بات ازراہِ تفنن نہیں لکھ رہا بلکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ گزشتہ چھ ماہ سے وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں توسیع کا سلسلہ جاری ہے اور 75رکنی وفاقی کابینہ میں ابھی مزید کتنے وزیروں اور مشیروں کا اضافہ ہونا ہے،یہ کسی کو معلوم نہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں اتنی بڑی کابینہ یقیناً قومی خزانے پر بوجھ ہے۔ایسے حالات میں جب عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہو رہی ہے تووزیر اعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی کرسی بچانے اور اتحادیوں کو خوش کرنے کیلئے قومی خزانے اور وسائل کا ضیاع کریں۔ ملک میں اس وقت جس طرح کی سیاسی گرما گرمی جاری ہے، اس میں ایسے اعتراضات کوعام طور پر سیاسی مخالفت کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے لیکن اس حکومت کی اگرگزشتہ چھ ماہ کی معاشی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آ تی ہےکہ معاشی حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ اس وقت پیٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق مارچ 2022 ء میں مہنگائی کی مجموعی شرح 12.7فیصد تھی جو اکتوبر2022ء میں بڑھ کر 26.6فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ اثر کھانے پینے کی اشیاء پر پڑا ہے۔ اسی طرح گزشتہ چھ ماہ کے دوران ٹرانسپورٹیشن64 فیصد، تعلیم سات فیصد،ادویات15فیصد،ملبوسات اور جوتے17فیصد، بجلی ، گیس وپیٹرولیم مصنوعات 15فیصد، تعمیراتی سامان29 فیصد،تفریحی سرگرمیاں 27 فیصد اور ہوٹلنگ و ریسٹورنٹس میں کھانے پینے کے اخراجات میں 33فیصد اضافہ ہو اہے۔ عام آدمی کی روزہ مرہ ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگرمہنگائی کی شرح میں اضافے کا جائزہ لیا جائے تو سرکاری اعدادوشمار اور بھی ہوشربا ہیں۔ محکمہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت ٹماٹر 219 فیصد، پیاز 167فیصد، چنے 70فیصد، دالیں 65 فیصد، بیسن 62فیصد، سرسوں کا تیل 61فیصد، ثابت مسور 61فیصد، سبزیاں 59فیصد، کوکنگ آئل 58 فیصد، دال ماش 55فیصد، گھی 53فیصد، ثابت مونگ 50فیصد، گندم46فیصد، چائے42فیصد، چاول 41فیصد، آٹا37فیصد، دودھ 30فیصد ، گوشت 25فیصد، آلو 21فیصد، مچھلی 15فیصد اور چکن 12فیصدمہنگا ہو چکا ہے جب کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان جاری ہے۔ یہاں حکومت کا یہ دعویٰ کسی حد تک درست تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے ۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اب بھی اسی سطح پر ہیں جہاں چند سال پہلے تھیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کی حکومتوں نے اپنے شہریوں کے مفاد میںنہ صرف بنیادی اشیائے ضروریہ کی طلب اور رسد کے نظام کو کنٹرول میں رکھا ہے بلکہ ان کی قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھنے کیلئے سبسڈی بھی دی جاتی ہے۔علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت کو بھی عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے ، عالمی پابندیوں اور آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے معاشی دبائو کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اس کے باوجودگزشتہ حکومت نے ہر ممکن حد تک عوام کو ریلیف پہنچانے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کو بھی کنٹرول میں رکھا تھا۔ اس کے برعکس گزشتہ چھ ماہ میں پانچ بنیادی اشیائے ضروریہ آٹا، گھی، چینی، چاول اور دودھ کی قیمتوں میں30سے 40فیصدتک اضافہ ہو چکا ہے۔ محکمۂ شماریات کے ریکارڈ کے مطابق، مارچ 2022ء میں ایک کلوگرام آٹے کی قیمت 60سے 70روپے، گھی 350سے 410روپے، چینی 95 سے 100روپے، باسمتی چاول 150سے 170 روپے اور ایک لیٹر دودھ کی قیمت 110سے 120روپے تھی ۔ تاہم اب چھ ماہ کے مختصر عرصےمیں ایک کلوگرام آٹے کی قیمت110سے 120 روپے، گھی 450سے600روپے، چینی90 روپے، باسمتی چاول200سے250روپے اور ایک لیٹر دودھ کی قیمت 130سے140روپے ہو چکی ہے۔ علاوہ ازیں، قومی سطح پر بھی معیشت گزشتہ چھ مہینوں کے دوران جمود اور دباؤ کا شکار رہی جس کی وجہ سے درآمدات اور برآمدات کے درمیان عدم توازن اور افراط زر میں اضافہ ہوا۔ اس حکومت کے پہلے تین ماہ کے دوران زرمبادلہ کے ذخائر محض 18 فیصد رہ گئے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے پاکستان کی رینکنگ میں کمی بھی موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیو ں پر سوالیہ نشان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں بدترین سیلاب کے باوجود ابھی تک کہیں سے خاطر خواہ مالی تعاون حاصل نہیں ہوا۔ پاکستان کو رواں سال کے دوران مجموعی طور پر 32 ارب ڈالرز درکار ہیں جن میں سے 23 ارب ڈالرز غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور دس سے 12 ارب ڈالر کرنٹ اکائونٹ خسارے کی نذر ہو جائیں گے۔دوسری طرف ملکی خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے خام مال کی قیمتوں کے علاوہ درآمد اور تیار کی جانے والی اشیا کے نرخوں میں بے پناہ اضافہ واقع ہوا جب کہ لارج ا سکیل مینوفیکچرنگ میں ساڑھے 16فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنانے سے بھی کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔