پارٹی سے وفادار لوگ

November 22, 2022

مخدوم سیدیوسف رضا گیلانی ملتان کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جو پچھلی کئی نسلوں سے سیاست میں مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے۔ملتان کی درگاہ حضرت موسیٰ پاک کا گدی نشین ہونے کی بنا پر ان کا خاندان مریدوں یا روحانی پیروکاروں کا بھی وسیع حلقہ رکھتا ہے۔ ملتان کے اس پیر نے پاکستان پیپلز پارٹی سے جس طرح وفا نبھائی اس کو تاریخ میں ہمیشہ سنہرےحروف میں لکھا جائے گا، ایک ایسے وقت جب وہ وزیر اعظم تھے اور ان پر سودے بازی کیلئے بھرپور پریشر دیا جارہا تھا کہ کسی طرح اس شخص کو سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف استعمال کیا جائے؟ یوسف رضا گیلانی اس وقت اگر چاہتے تو زرداری مخالف قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہوکر اپنے اور اپنے خاندان کے لئے بھرپور فوائد اکٹھے کر سکتے تھے۔ لیکن پی پی پی کے ساتھ وفا نبھانے کی پاداش میں یوسف رضا گیلانی اور ان کے خاندان پر جو بیتی اسے پوری دنیا نے دیکھا، ان کے بیٹے حیدر گیلانی کو اغواکر کے افغانستان پہنچا دیا گیا، ان کو نااہل کر کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے ان کے خاندان کو انتخابی سیاست سے باہر کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ 2018 کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسی گیلانی جو حال ہی میں ضمنی انتخابات میں جیت کر قومی اسمبلی کے رکن بنےہیں، وہ 2018 کے انتخابات میں بھی جیت چکے تھے، لیکن دھاندلی کرا کے انہیں اس انتخاب میں ملتان کی سیاست سے باہر کر کے شاہ محمود قریشی کے بیٹے کو سامنے لایا گیا، جن کا ملتان کی سیاست سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا، یاد رہے اس دھاندلی زدہ انتخابات میں بھی شاہ محمود قریشی کے بیٹے کو 77ہزار ووٹ ملے، جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والے موسیٰ گیلانی کو 70 ہزار جبکہ تیسرے نمبر پر آنے والے ن لیگ کے امیدوار کو 62 ہزار ووٹ ملے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مجموعی ووٹ پی ٹی آئی سے کہیں زیادہ تھے، لیکن مخالفین یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں اور سید یوسف رضا گیلانی کو ملتان کی سیاست میں اس لئے محدود کرنا چاہتے تھے کہ گیلانی خاندان ڈنکے کی چوٹ پر پی پی پی کے ساتھ کھڑا تھا، اس خاندان نے جس طرح کی قربانیاں دیں اور جس آزمائش سے اس کو گزرنا پڑا وہ کوئی اور خاندان ایک دن بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا، لیکن ملتان کے لوگ جانتے ہیں کہ علی حیدر گیلانی ہوں، علی موسی، قاسم یا پھر یوسف رضا گیلانی خود ہوں وہ ملتان کے لوگوں کے دکھ اور سکھ کے ساتھی ہیں، وہ بہت باوقار شجرہ رکھتے ہیں، حال ہی میں ملتان کے عوام نے شاہ محمود قریشی کی بیٹی کو بحیثیت امیدوار قومی اسمبلی رد کر کے یہ اعلان کردیا ہے کہ ملتان کے عوام باوجود تمام تر ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈے کے گیلانی خاندان کے ساتھ کھڑےہیں۔سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی گیلانی خاندان ملتان کی سیاست میں اپنااثر قائم کیسے رکھے ہوئے ہے ؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ گیلانی ہوں یا گیلانی کے بیٹے، آج کی بات ہو یا سابقہ دور کی جب بم دھماکوں کی گونج تھی، ملتان میں سڑکوں پر، چوراہوں پر یہ لوگوں سے بغل گیر ہوتے دکھائی دیتے تھے، وہ لاہور یا اسلام آباد میں رہنے کے بجائے اپنے لوگوں میں رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں موسیٰ گیلانی نے تاریخی فتح حاصل کی، حالانکہ پنجاب حکومت نے کوئی کسرنہیں چھوڑی تھی کہ گیلانی اور ان کے بیٹے کو شکست ہو لیکن ہر حربہ ناکام ہوا اور علی موسیٰ گیلانی کو فتح حاصل ہوئی۔سید علی موسیٰ گیلانی اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے ملتان میں پی پی پی رہنما سے زیادہ کارکن دکھائی دیتے ہیں، پی پی پی کے جلسوں میں سڑکوں پر خود پینافلیکس اور پوسٹر لگاتے دکھائی دیتے ہیں، پی ٹی آئی کی حکومت نے انہیں جیل میں قید بھی کرایا لیکن وہ پھر بھی اپنے اصولوں پر قائم رہے اور پی پی پی سے بے وفائی نہ کی اور یہی گیلانی خاندان کی کامیابی کی وجہ ہے۔ تاریخ میں وہ لوگ ہی زندہ رہتےہیں جواپنے اصولوں پر کابند رہتے ہیں اور اپنی پارٹی سےوفا داری نبھاتے ہیں،مجھے یقین ہے کہ اب تک جن لوگوں نے پیپلزپارٹی سے وفا نہیں کی ان کا مستقبل تاریک ہوگیا دیکھنا یہ ہوگا کہ کب وہ پی پی پی کے دروازے پر دستک دیتے ہیں، آج نہیں تو کل ایسا ہونا ہی ہے۔