17ویں ’’سپہ سالار‘‘ سے’’ توقعات‘‘

November 27, 2022

جنرل عاصم منیرکو بظاہرنیا چیف آف آرمی اسٹاف اور جنرل ساحر شمشادمرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس بنانے کے بعد ملک میں اہم عسکری عہدوں پر تعیناتی کے باب میں جہاں’’ ہیجانی ‘‘ کیفیت ختم ہو گئی ہے وہاں’’ سازشی نظریات اور قیاس آرائیاں‘‘ بھی دم توڑ گئی ہیں۔ پچھلے سات ماہ سے ’’اپنا‘‘ آرمی چیف لگانے کی غیر ضروری بحث نے اس اہم منصب پر تقرری کو متنازعہ بنا دیا تھا،کچھ حلقوں کی جانب سے دانستہ اس اہم منصب پر تقرری پر جی بھر کر سیاست کی گئی حتیٰ کہ وزیر اعظم کی جانب سے صدر مملکت کو آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تقرری کے لئے بھجوائی جانے والی سمری پر بھی کھیل کھیلنے کا عندیہ دے کر ریاستی اداروں کے لئے پریشان کن صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ فوج کے نئے سپہ سالار کی تقرری کو کرکٹ کے کھیل سے تشبیہ دینا سراسر زیادتی اور ریاستی اداروں کے ساتھ سنگین مذاق تھا۔ سمری موصول ہونے کے بعد صدر مملکت جس تیزرفتاری سے عمران کے’’ بلاوے‘‘ پر زمان پارک لاہور پہنچے، اس سے سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ خدا خیر کرے کہیں اہم عسکری عہدوں پر تعیناتی پرآئینی بحران پیدا ہو جائے گا لیکن صدر مملکت صبح کے وقت وزیر اعظم کے طیارے پر جن قدموں سے لاہور گئے ان ہی قدموں پر شام کو اسلام آباد پہنچ کر پہلا کام سمری پر دستخط کرنے کا کیا جس کے بعد جنرل عاصم منیر اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کی تقرری بطور آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ہوگئی۔ اس کے کچھ دیر بعد ہی دونوں جرنیلوں نے روایت کے مطابق صدر مملکت اور وزیر اعظم سے ملاقات بھی کی۔ سب نے دیکھا کہ جرنیلوں نے وزیر اعظم کو جہاں سیلوٹ کیا وہاں وزیر اعظم نے بھی آگے بڑھ کر اپنے دفتر کے دروازے پر ان کا خیر مقدم کیا، ممکن ہے ’’سازشی کہانیاں‘‘ گھڑنے والے عناصر کو باہمی عزت و احترام کے اس رشتے پر مایوسی کا سامنا کرنا پڑ اہو۔ وزیر اعظم نے سنیارٹی کے مطابق تقرریاں کر کے ’’اپنا ‘‘ آرمی چیف لگانے کے پروپیگنڈےکو دفن کر دیا۔ پچھلے 6،7ماہ سے ان اہم عہدوں پر تقرری پر کچھ عناصر نے خوب سیاست کی اور عوام کی نیند حرام کر دی۔عوام نے کئی دنوں بعد 24نومبر2022ء کی رات سکون سے گزاری۔ پروپیگنڈا مہم کے لئے استعمال ہونے والے’’ یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ‘‘کا محاذ سرِدست خاموش ہے۔ ان کوفی الحال کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ کس طرح فوج پر تنقید کا جواز پیدا کریں ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اگرچہ یوم شہدا و یوم دفاع کی تقریب میں دُکھی دل سے ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کا ذکر کیا لیکن ان کے صبر و تحمل کو داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ انہوں نے اپنی ذات اور فوج کے خلاف پروپیگنڈا کو برداشت کیا۔اب نئی عسکری قیادت آگئی ہے، یو ٹیوبرز اور سوشل میڈیا کے بے مہار کارندوں کی فوج کو صبر کا مزید امتحان نہیں لینا چاہئے۔

صدر عارف علوی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف ضرورہیں لیکن وہ خود آئین کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کو سمری موصول ہوئی تو انہوں نےعمران خان کے سامنے تابع محمل بننے کی بجائے ایک پوزیشن لی اور اہم عسکری تقرریوں کو متنازعہ نہیں بنایا بلکہ آئینی تقاضوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ۔ فوج کی طرف سے اگرچہ 5کی بجائے 6جرنیلوں کے نام آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تقرری کے لئے تجویز کئے گئے تھے لیکن دو سینئر جرنیلوں کی اعلیٰ عہدوں پر تقرری سے کوئی سپر سیڈ ہوا اور نہ ہی کسی کا حق مارا گیا۔ عام تاثر ہے کہ نواز شریف ’’اپنا ‘‘ آرمی چیف لانا چاہتے تھے جس کے لئے وزیر اعظم شہباز شریف کو بار بار مشاورت کے لئے ’’لندن یاترا‘‘ کرنا پڑی لیکن عملی طور پر دیکھا جائے توآرمی چیف کی تقرری کے عمل کے دوران نوازشریف ملکی صورت حال سے لاتعلق ہو کر یورپی ممالک میں’’ سیر سپاٹے‘‘ کر رہے تھے۔دوسری جانب حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے جہاں آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف پر بھرپور اعتماد کا اظہار کر کے ان کو فری ہینڈ دے دیا وہاں پی ٹی آئی نے بھی اپنے اعلامیے میںمحتاط انداز میں عسکری قیادت کی تقرری کا خیر مقدم کیا ہے ۔یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے عسکری قیادت کے انتخاب کو قبول کیا ہے۔

اسے حسن اتفاق کہیں یا کچھ اور، جنرل عاصم منیر اور ساحر شمشاد مرزا دونوں کا تعلق خطۂ پوٹھوہار سے ہے۔ جنرل عاصم منیر ڈھیری حسن آباد راولپنڈی اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کا تعلق چکوال کے موضع ملہال مغلاں کے متوسط گھرانوں سے ہے۔جنرل عاصم منیرایک جہاندیدہ فوجی افسر ہیں جب کہ جنرل ساحر شمشاد نے تو فوج اور یونٹ کو اپنا وارث قراردیا تھا۔ساحر شمشاد نے بطور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس شہرت حاصل کی ہے۔ نئی عسکری قیادت سے عوام نے بے پناہ توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔دعا ہے کہ نئی وعسکری قیادت عوام کی توقعات پر پورا اترے۔ جنرل باجوہ نے یوم شہدا ء و دفاع کی تقریب میں جہاں عمران خان کی سازش کے بیانیے کو جھوٹا قرار دیا وہاں آر ٹی ایس کی بندش میں جیتی ہوئی جماعت کو ’’سلیکٹڈ‘‘اور تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں آنے والی حکومت کو’’ امپورٹڈ ‘‘کہنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔