وطن عزیز کی سیاست

November 27, 2022

وطن عزیز میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری سیاسی طوفان بڑھتا ہی جا رہا ہے جس کی وجہ سے معیشت کاجہاز شدید ہچکولے کھا کھا کر ڈگمگا نے کی کیفیت سے دو چار ہے ۔حکومت وقت معیشت کو گرداب سے باہر نکالنے کی جتنی بھی کوشش کر رہی ہے ، سب ناکام ہورہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کرنے کے بعد چین سے بھی ہو کر واپس آ گئے ہیں مگر اقتصادی میدان میں ٹھہرائو کی کیفیت پید ا نہیں ہو رہی ۔مہنگائی دن دوگنی اوررات چوگنی ترقی کر رہی ہے، غریب کے کچن کا چولہا نہیں جل رہا اور وہ دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے جب کہ زعمائے سیاست اپنے اللے تللوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

اقتدار سے علیحدگی کے بعد تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان قریہ قریہ اور شہر شہر جلسے کرنے کے بعد اور ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد لانگ مارچ کے ساتھ اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے تھے کہ وزیرآباد کے مقام پر ان پر قاتلانہ حملہ ہو گیا جس کی وجہ سے وہ زخمی ہو کر پہلے ہسپتال اوراب اپنے گھر منتقل ہو گئے ہیں ۔ زخمی ہونے کے باوجود انہوں نے چند دن کے وقفے کے بعد دوبارہ سے لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ان حالات میں جبکہ ان پر حملے کی رپورٹ درج کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے دوبارہ لانگ مارچ جاری رکھنے کا اعلان ملک میں سیاسی و معاشی ابتری پیدا کرنے کا سبب بنے گا اور مہنگائی کو روکنے کی جو حکمت عملی ہے اس کی ناکامی ہو گی اورغریب کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ ملکی معیشت کا مضبوط بنیادوں پر استوار ہونا تما م اسٹیک ہولڈرز کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا سانس لینے کے لیے آکسیجن انسان کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔پاکستان کب تک اقوام غیار کے آگے کشکوک لئے اپنی مدد کیلئے آہ و بکا کرتا رہے گا؟

ماضی قریب میں جب چائنہ کے ساتھ سی پیک کا منصوبہ شروع کیا گیا تو امید کی کرن نظرآئی تھی کہ شاید اس منصوبے کی وجہ سے پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کا پہیہ تیزی سے چلنا شروع ہو جائے گا اور ترقی کی منازل طے ہوں گی ،جس طرح چین میں ترقی کی منازل طے کی گئیں لیکن اس منصوبے کو بتدریج بند کر دیا گیا، جس کا اثر پاکستان پر بڑی بری طرح ہوا۔ سینکڑوں پاکستانی طلبا، جو سی پیک کے تحت تعلیم حاصل کرنے چین گئے ہوئے تھے ،وہ اب پاکستان میں اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں، ان کا مستقبل تاریک ہو گیا ہے کیوں کہ ان کو نہ صرف اسکالر شپس سے محروم کر دیا گیا ہے بلکہ ان کی ڈگریوں کو بھی منجمد کر دیا گیا ہے،و ہ نہ پاکستان میں اور نہ چین میں کام کر سکتے ہیں۔اس سلسلے میں چین کا سید ھا سادا سا استدلال ہے کہ یہ ا سکالر شپس سی پیک کے تحت دئیے جا رہے تھے لہٰذا جب پاکستان نے سی پیک بند کردیا توپھر پاکستانی طلبا ء کو کس طرح سی پیک کے وظائف دئیے جا سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں چین کو منانے اورسی پیک کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس میں کتنی کامیابی حاصل ہوتی ہے، کچھ کہا نہیں جا سکتا کیونکہ سیاسی بے یقینی کی کیفیت ہر چیز پر حاوی ہے۔

عمران کا سڑکوں پر رہنا اور اپنی سیاسی جد وجہد کے ذریعے حکومت پردبائو بڑھانا معاشی استحکام کے لیے بہت خطرناک ہے۔ اس سلسلے میں امید تھی کہ تمام اسٹیک ہولڈز بات چیت سے ملکی معیشت کی حالت سامنے رکھتے ہوئے کوئی نہ کوئی حل تلاش کر یں گے مگر اس طرف جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ ملکی اداروں کو سیاسی گرداب میں لپیٹنے سے استحکام کی بجائے انارکی پھیلے گی۔ عمران خان نے گوجرانوالہ میں خطاب کے دوران جس طرح عوامی لیگ کی 1970کے الیکشن میں کامیابی اوراس جماعت کو اقتدار سے دور رکھنے کی بات کر کے دبی ہوئی چنگاریوں کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے، پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ عوامی لیگ کی 1970کے الیکشن میں کامیابی میں بھارت نے اہم کردار ادا کیا۔ مشرقی پاکستان کی معیشت پر قابض ہندوئوں نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر علیحدگی کی تحریک کو جنم دیا۔ موجودہ حالات مگر نہایت مختلف ہیں اور اس وقت عوامی لیگ کی تعریف تاریخ کے رُخ کو موڑنے اور نئی سوچ پیدا کرنے کی ایک ناکام کوشش سے زیادہ کچھ نہیں ہے جس سے بچنا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مشترکہ دوستوں کے ذریعے بات چیت کے راستے کو ہموار کرے اور عمران خان کو مذاکرات کی میز پر بٹھائے۔ دوسری جانب تحریک انصاف میں موجود فاختائوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور بات چیت کے لیے اپنے چیئرمین کو راضی کرنا چاہیے کیوں کہ دنیا میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو بات چیت کے ذریعے حل نہ ہو سکے ۔ یہ وطن ہم سب کا ہے جس کی آبیاری کے لیے ہمارے شہدا ء نے اپنا خون دیا ہے۔ اس کی محبت اورا ستحکام ہم سب پر فرض بھی ہے اورقرض بھی۔ اس کو مزید غیر مستحکم نہ کریں اور بات چیت کا آغاز کریں۔