پروجیکٹ عمران اور ہائبرڈ رجیم

December 04, 2022

29نومبر 2022ء کا سورج طلوع ہواتو پاکستان میں عسکری قیادت تبدیل ہو گئی ۔ اس کے ساتھ ہی بہت کچھ تبدیل ہو گیا۔ دوست اور دشمن بے نقاب ہو گئے۔’’دشمن ‘‘ میان سے تلواریں نکا ل کے سامنے آگئے،اگرچہ 10اپریل 2022ء کو عدم اعتماد کے ووٹ نے’’ ہائبرڈ رجیم‘‘ کا خاتمہ کر دیا لیکن جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی جہاں ’’باجوہ ڈاکٹرائن ‘‘ کا خاتمہ ہوا وہاں ’’پروجیکٹ عمران‘‘ بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ یہ سیاسی اصطلاحات جنرل باجوہ کی’’ عسکری حکمرانی‘‘ کے دوران رائج ہوئیں جبکہ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹائے جانے کے بعد پی ڈی ایم کو ’’امپورٹڈ حکومت ‘‘ کا نام دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ پچھلے 6سال کے دوران اگرچہ فوج بظاہر کہیں نظر نہ آئی لیکن ہر جگہ’’ باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کا عمل دخل ہی نظر آیا ۔ راولپنڈی سے عمران خان کی انگلی پکڑ کر چلانے کی ہر ممکن کو شش کی جاتی رہی لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ راولپنڈی والوں نے عمران خان سے مایوس ہو کر ہاتھ جھٹک دیا اور ان کو منتشر اپوزیشن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ، اس کمزور لیکن دانا اپوزیشن نے دنوں میں عمران خان کی حکومت کو گھر بھیج دیا بعض لوگ اس تبدیلی کا کریڈٹ آصف علی زرداری کو دیتے ہیں لیکن میں عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ دیتا ہوں جنہوں نے جہاں نواز شریف ، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو متحد کر دیا وہاں2018ء کو آر ٹی ایس بند ہونے کے نتیجے میںوجود میں آنے والے کم و بیش تمام چھوٹے چھوٹے گروپوں کو پی ڈی ایم کی جھولی میں ڈال دیا۔ عمران خان پچھلے7ماہ سے اقتدار میں واپسی کیلئے دیواروں سے ٹکریں مار رہے ہیں بظاہر پورے ملک میں ان کی مقبولیت کا ڈھول بج رہا ہے مگر وہ مختلف سیاسی محاذوں پر شکست کے باوجود اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے پر تیار نہیں ۔وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی نے انکشاف کیا ہے کہ’’ جنرل باجوہ نے نہ صرف پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا بلکہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے وقت مجھ سے کہا کہ عمران خان کے ساتھ جائیں ،ان کے کہنے ہی پر ہم نے پی ٹی آئی کی حمایت کی، اگر جنرل باجوہ عدم اعتماد کا حصہ ہو تے تو ہمیں کیوں اس طرف جانے کا کہتے؟ جنرل باجوہ نے پی ٹی آئی کے لئے بہت کچھ کیا اب وہ چلے گئے ہیں تویہ ان کے خلاف باتیں کر رہے ہیں، جنرل باجوہ نےتو عمران خان کے لئے دریائوں کا رخ موڑ دیا تھا ‘‘ ۔مونس الٰہی کے بیان پر تبصرہ کی گنجائش نہیں کہ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا دی ہے ۔

تاحال عمران خان نے باجوہ ڈاکٹرائن، جس نے انکا مسند اقتدار پر بیٹھنا یقینی بنا یا،ان کی ریٹائرمنٹ پر کوئی بیان جاری نہیں کیا تاہم ان کی بی ٹیم نے جنرل باجوہ پر طعن و تشنیع کی بارش کر دی ہے۔ہائبرڈ رجیم سے مراد ملک میں عملاً دو حکومتیں تھیں، ایک حکومت اسلام آباد سے چلائی جا رہی تھی جب کہ دوسری راولپنڈی سے اسلام آباد کی حکومت کو کنٹرول کر رہی تھی ،پوری دنیا کو اس بات کا علم تھا کہ اسلام آباد میں بیٹھے حکمراں کے پاس کوئی بڑا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دنیا بھر سے فنڈز اکھٹے کرنے کیلئے جنرل باجوہ بہ نفس نفیس خود دورے کرتے رہے ویسے تو کافی عرصہ سے بیرون ملک سے آنے والے وفود راولپنڈی کا دورہ ضرور کرتے تھے لیکن جنرل باجوہ کے دور میں اس تاثر کو تقویت ملی کہ اسلام آباد کی حکومت کی حیثیت ایک ’’کٹھ پتلی ‘‘ سے زیادہ نہیں۔

باجوہ ڈاکٹرائن ایک متنازعہ فلسفہ حکمرانی تھا جس کا مقصد ’’ مارشل لا لگائے بغیر پورے جمہوری نظام کو اپنی گرفت میں رکھنا تھا بظاہر آئین اور جمہوریت کی حکمرانی کا ڈھنڈورا پیٹا جا تا رہا لیکن دراصل یہ ملفوف آمریت تھی ،جب عمران نے وزیر اعظم بننے کی کوشش کی تو اس کی بیساکھیاں کھینچ لی گئیں ۔

2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) مائنس ون کے فارمولے کو قبول کر لیتی تو پھر عمران خان کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج نہ سجتا بلکہ عمران خان کی جگہ شہباز شریف نے لے لینی تھی لیکن شہباز شریف نے نواز شریف سے بے وفائی کر کے اقتدار حاصل کرنے کی بجائے قیدو بند کی صعوبتوں کو قبول کر لیا ۔میں یہ بات دھڑلے سے کہہ رہا ہوں کہ عمران خان جنرل باجوہ کی کبھی چوائس نہیں رہے ،عمران خان کو اقتدار کے منصب پر بٹھانے کے لئے ہر جائز ناجائز حربہ اس لئے استعمال کیا گیا کہ نواز شریف اپنی جگہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کے لئے تیار نہیں تھے اگر نواز شریف مان جاتے تو پی ٹی آئی کی بجائے مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوتی ،جب نواز شریف مان گئے تو دنوں میں شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے ۔(جاری ہے )

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)۔