پرویز الہٰی کے بیانات پر جنرل باجوہ کی وضاحت آنی چاہئے، خرم دستگیر

December 06, 2022

کراچی (ٹی وی رپورٹ) وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کے بیانات پر جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے وضاحت آنی چاہئے، نواز شریف اور آصف زرداری کو جنرل باجوہ کو توسیع دینے کی غلطی کا اعتراف کرلینا چاہئے.

پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنانا ہمارا اچھا عمل نہیں تھا، جنرل باجوہ ریٹائر ہوچکے ہیں عمرا ن خان کو اتنی جرات تھی تو اقتدار میں رہتے ہوئے یہ باتیں کرتے،عمران خان صوبائی اسمبلیاں نہیں توڑیں گے، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑی گئیں تو وہاں الیکشن ہوں گے۔

عمران خان جن بے ساکھیوں کے سہارے اقتدار میں آئے وہ ہٹیں تو انہیں اپنی غلطیاں یاد آگئیں۔ وہ جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔

پروگرام میں صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری بھی شریک تھے۔عابد زبیری نے کہا کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا کمزوری نہیں بہادری ہوتی ہے،اعظم سواتی کو بلوچستان میں قید رکھنا بہت افسوس کی بات ہے، آزادیٴ اظہار رائے بنیادی حق ہے ایسی کوئی پابندی نہیں لگ سکتی جس سے وہ ختم ہوجائے، پی ٹی آئی ارکان کے استعفے قبول نہیں ہورہے تو انہیں عدالت سے رجوع کرنا چاہئے۔

وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیرنے کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرچکے ہیں، انہیں جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کی غلطی کا اعتراف کرلینا چاہئے، عمران خان اپنے جھوٹ کو غلطی نہ کہیں، عمران خان نے پینتیس پنکچر کا الزام لگایا پھر کہا سیاسی بیان تھا، عمران خان اپنی ذمہ داری سے مکمل طور پر مفرور ہیں، عمران خان کہتے ہیں نیب ان کے ہاتھ میں نہیں تھا حکومت ان کے ہاتھ میں نہیں تھی،یہ عمران خان کی غلطی نہیں بلکہ ان کی کمزوری ہے۔

خرم دستگیر خان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ ریٹائر ہوچکے ہیں عمرا ن خان کو اتنی جرات تھی تو اقتدار میں رہتے ہوئے یہ باتیں کرتے، عمران خان جب حکومت میں تھے تب یہ غلطیوں کی باتیں نہیں کرتے تھے،موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو عمران خان نے ہی نامزد کیا تھا، پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنانا ہمارا اچھا عمل نہیں تھا، ہم پنجاب حکومت گرانے کیلئے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے۔

خرم دستگیر خان نے کہا کہ پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کے بیانات پر جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے وضاحت آنی چاہئے، فوج سیاست سے پیچھے ہٹنا چاہتی ہے تو سیاستدان بھی انہیں سیاسی مدد کیلئے طلب نہ کریں، فوج کی سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی برقرار رہنی چاہئے۔