’’کاپی پیسٹ‘‘

December 19, 2022

ہمارے ملک میں زیادہ تر پالیسیاں اختیار کرتے وقت ملکی حالات اور ضروریات کو مد نظر رکھنے کی بجائے، "کاپی پیسٹ" سے کام لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان پالیسیوں کے کبھی مثبت اثرات مرتب نہ ہو سکے، 80 کی دہائی میں پوری دنیا میں financial liberalisation پر زور دیا گیا۔ پاکستان میں بھی بغیر سوچے سمجھے نقالی شروع کردی گئی، کریڈٹ کارڈز کی سپلائی ایسے کی گئی جیسے بندر بانٹ ہو، پھر اندازہ ہوا کہ ایک ایک آدمی کے پاس کئی کئی کریڈٹ کارڈز ہیں اور بینکوں کی ریکوری ریٹ بہت کم ہے، پھر کچھ اصول وضع کئے گئے، لیکن جو defaulter نہیں تھے ان کے لئے آسانی کی گئی اور ان کے کریڈٹ کارڈز کی حد limit میں بہت زیادہ اضافہ کردیا گیا، امید یہ تھی لوگ اپنی ضروریات کے لئے اس کو استعمال کریں گے لیکن ایمپورٹرز اور ایکسپورٹرز نے اس کو اپنی کمرشل ٹرانزیکشنز کے لئے استعمال کرنا شروع کردیاجس کی بدولت کچھ عرصے بعد احساس ہوا کہ بینکنگ سیکٹر کچھ زیادہ ہی آزاد ہو چکا ہے اور پھر اس کو لگام دینے کے لیے اسٹیٹ بینک کو سخت حکمت عملی اختیار کرنی پڑی۔ 2002 میں 9/11 کے واقعہ کے بعد جب بینکوں کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے تھے تو سوجھ بوجھ کے بغیر consumer financing بڑے پیمانے پہ شروع کردی گئی، کہا گیا پوری دنیا میں consumer financing بہت عام ہے اب ہمیں بھی یہ شروع کردینا چاہیے لیکن یہ نہ سوچا گیا کہ جو ملک یہ قرضے فراہم اوروہ اپنی ہی پیداوار کو خریدنے کے لیے عوام کی مدد کر رہے ہیں، جب کہ ہم بیرونی ممالک سے اشیاء درآمد کروا کر ان کو خریدنے کے لئے عوام کو قرضے فراہم کر کے تجارتی خسارہ کو مزید بڑھا رہے ہیں اور نتیجتا ملک پہ قرضوں کا بوجھ بھی، لیکن دعوئ یہ تھا کہ یوں کرنے سے ہمارے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگا، اس وقت شرح سود دو فیصد کے قریب تھی۔ لوگ بڑے متاثر ہوئے اور قرض پہ قرض لے کر معیار زندگی بلند کرتے رہے یہ اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ یہ شرح سود مستقل بنیادوں پہ نہیں ہے، جب یہ بڑھنا شروع ہوگا تو وبال بن جائے گا، نتیجہ کے طور پہ سرمایہ کاری کے بہترین مواقع کو گنوا دیا گیا اور لوگوں کو قرضوں کے شکنجہ میں پھنسا دیا گیا۔ پھر ایک دور آیا کہ خواص کو معلوم ہوا کہ پٹرولیم مصنوعات بہت مہنگی پڑتی ہیں، سی این جی اس کا مکمل بدل perfect substitute ہے، لہذا اب سی این جی اسٹیشنز بنائے جائیں اور پیٹرول بیچنے والے اب compressed national Gas بیچیں، دھڑا دھڑا سب گاڑیوں میں گیس کٹ لگنی شروع ہو گئیں اور عوام گیس لینے کے لئے لمبی قطار میں لگ گئے۔ کچھ عرصہ "کچھ لوگوں " کو خوب منافع ہوا کہ نئی خبر آئی کہ گیس کے ذخائر تو کم ہو رہے ہیں، اگر اسی طرح گیس کا استعمال جاری رہا تو کچھ عرصے بعد گیس کی شدید قلت پیدا ہوجائے گی۔پہلے گیس کی قیمت کو بڑھانے کی کوشش کی گئی لیکن بات نہ بنی تو لوڈ شیڈنگ سے مدد لینی پڑی، پھر بھی حالات کنٹرول میں نہ آئے تو گھریلو صارفین کی گیس سپلائی روک دی گئی، لیکن یہ بخوبی اندازہ ہوا کہ معاشرتی علوم (Social Studies) کی کتاب کے مصنفین نے "کمال مبالغہ آرائی " کا سہارا لیا تھا، پتا نہیں ان کا ضمیر ان کو ملامت بھی کرتا ہوگا یا وہ بچارہ مرحوم و مغفور ہوچکا ہوگا، یوں پٹرول کے مکمل متبادل "CN G" کا نعرہ بھی غلط ثابت ہوا۔ دوسری طرف تمام بجلی کے پیداواری یونٹس کو فرنس آئل سے گیس پر منتقل کر دیا گیا، کیوں کہ گیس کے ذخائر تو وافر مقدار میں موجود تھے، اور سائنس کے مطابق re newable resources (وہ وسائل جو استعمال ہونے ساتھ ساتھ دوبارہ بنتے جاتے ہیں جیسے سورج کی روشنی، پانی وغیرہ) and non renewable resources ( جو استعمال ہونے سے ختم ہوتے چلے جاتے ہیں یا زمین میں پڑے پڑے بھی ختم ہوجاتے ہیں،) کے متعلق علم جن کا تعلق صرف کتاب اور امتحان لینے تک ہے عملی زندگی سے ان کا کوئی تعلق ہی نہ ہے۔ یعنی یہ بھی سوجھے سمجھے بغیر اپنائی گئی ایک اور ناکام حکمت عملی تھی۔ان سب باتوں کا ذکر کرنے کا مقصد تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح ہے۔ آخر ہم اپنے دماغ کا استعمال کب کریں گے؟ کب اپنے سماجی اور نفسیاتی حالات کا بغور مطالعہ کرکے پالیسیاں اختیار کریں تاکہ fruit full مثبت نتائج حاصل کریں گے؟ بہت کر لی اندھا دھن نقالی۔

minhajur.rabjanggroup.com.pk