معاشی بحران کے اسباب اور حل

December 24, 2022

پاکستان کی معیشت چند ماہ پہلے تک ترقی کی جانب گامزن تھی اور جون 2022ء میں نئے مالی سال کے آغاز سے پہلے جاری کئے گئے پاکستان اکنامک سروے کے مطابق تمام شعبوں میں نمایاں ترقی ہو رہی تھی۔ اس سروے کے مطابق گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی میں ترقی کی شرح چھ فیصد تھی حالانکہ اس وقت کی حکومت نے کورونا کی وبا اور عالمی سطح پر کساد بازاری کے باعث جی ڈی پی کا ہدف 4.8 فیصد مقرر کیا تھا۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ کسی حکومت نے جی ڈی پی میں طے شدہ ہدف سے زیادہ ترقی کا ریکارڈ قائم کیا ۔ اسی طرح جولائی 2021سے مئی 2022 تک کے عرصے میں برآمدات 28ارب 84 کروڑ ڈالر رہیں جبکہ اس سلسلے میں ہدف 26 ارب 83 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا تھا یعنی برآمدات کے شعبے میں بھی ہدف سے زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافہ بھی 3.5فیصد کے ہدف کی نسبت 4.4فیصد رہا جبکہ صنعتی شعبے کی پیداوار 6.6فیصد کے ہدف کی نسبت 7.2 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ علاوہ ازیں خدمات کے شعبے میں اضافہ 4.7فیصد ہدف کی نسبت 6.2فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ مجموعی سرمایہ کاری 16.1فیصد ہدف کے مقابلے میں 15.1فیصد رہی۔برآمدات میں 61.24فیصد شیئر کی وجہ سے ٹیکسٹائل کے شعبے کو نمایاں اہمیت حاصل ہے ۔ یہ شعبہ صنعتی ویلیو ایڈڈ مصنوعات میں تقریباً ایک چوتھائی حصہ ڈالتا ہے اور صنعتی لیبر فورس کے تقریباً 40فیصد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس شعبے کی برآمدات کا حجم 14.2ارب ڈالر رہا جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 25.4فیصد زیادہ تھا۔ علاوہ ازیں ٹیکسٹائل کے شعبے کی استعداد بڑھانے کیلئے جولائی 2021ء سے مئی 2022ء تک کے عرصے میں 62کروڑ 17 لاکھ ڈالر کی مشینری درآمد کی گئی جو اس سے پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 64.7فیصد زیادہ تھی۔ اس کے مقابلے میں اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ معیشت کا ہر شعبہ تنزلی کی جانب گامزن ہے جبکہ سرمایہ کار سے محنت کش تک ہر طبقہ معاشی عدم اطمینان اور بے یقینی کا شکار ہے۔ پاکستان کو اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا ہے ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جاری اعدادوشمار کے مطابق رواں ماہ کے آغاز پر زرمبادلہ کے ذخائر کا مجموعی حجم 6.7ارب ڈالر تھا جو دو سے تین ماہ کی درآمدات کیلئے درکار زرمبادلہ سے بھی کم ہے ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں مہنگائی اور افراط زر کی شرح بلند ترین سطح پر ہے جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ملنے والے فنڈز کی فراہمی بھی رک چکی ہے۔اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کا بڑا حصہ دوست ممالک کی طرف سے فراہم کئے گئے ان فنڈز پر مشتمل ہے جو مرکزی بینک میں جمع ہیں اورحکومت کو انہیں استعمال کرنے کا اختیار نہیں ہے یا پھر یہ کمرشل بینکوں کی ملکیت ہیں۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے مزید تشویشنا ک ہے کہ پاکستان کو اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور قرضوں کی ادائیگی کیلئے رواں مالی سال میں تقریبا 30ارب ڈالر سے زیادہ کے فنڈز درکار ہیں۔ دوسری طرف آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ملنے والے متوقع فنڈزکی فراہمی جائزہ پروگرام کی تکمیل میں تاخیر کے باعث تعطل کا شکار ہے۔ ایسے میں حکومت کی تمام تر توقعات چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے ملنے والے فنڈز اور مالیاتی رعایتوں سے وابستہ ہیں۔ ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت اور 22کروڑ سے زائد آبادی کا حامل ملک چند ماہ میں ہی اس صورتحال سے دوچار کیوں ہو گیا کہ خاکم بدہن اس کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے حکومتی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف حکام سے طے کئے گئے اہداف پورے کرنے کی بجائے اب یہ کھوکھلے دعوے کر رہے ہیں کہ انہوں نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر دی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نہ صرف آئی ایم ایف سے طے کئے گئے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ آئی ایم ایف نے حکومت کی طرف سے جمع کروائی گئی سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی رپورٹ کو بھی غیر تسلی بخش قراردے دیا ہے ۔حکومت کا یہ مؤقف بھی تسلیم نہیں کیا گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے اہداف سیلاب کی وجہ سے حاصل نہیں کئے جاسکے ہیں۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف سے جو معاہدہ 2019 میں کیا گیا تھا وہ اسی پر قائم ہے لیکن حکومت اس معاہدے پر عمل درآمد میں ناکام رہی ہے ۔ ان حالات میں پاکستان کو تقریباً 855ارب روپےکے خسارے کا سامنا ہے جسے پورا کرنےکیلئے یا تو منی بجٹ پیش کرنا پڑے گا یا پھر اسے پورا کرنےکیلئے پیٹرولیم لیوی میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ اس کے باوجود حکومتی کابینہ اور غیر پیداواری اخراجات میں اضافہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سےقرض کی رقم کے استعمال کی شفافیت پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ایسے میں یہی نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کو اس وقت تک قرض نہیں ملے گا جب تک تقریباً 855ارب کی آمدنی اور سیلاب سے ہونیوالے نقصانات کو بجٹ کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔اس مشکل سے نکلنےکا واحد راستہ یہ ہے کہ یا تو نئے الیکشن کروا کے ملک میں جاری سیاسی انتشار ختم کیا جائے یا شہباز شریف حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے کئے گئے وعدے پورے کرے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)