شہباز گورننس ماڈل

December 26, 2022

مسلم لیگ ن کی مرکز میں حکومت کو تقریباً نو ماہ ہونے والے ہیں۔مرکزی حکومت لینے سے پہلے شہباز شریف پنجاب میں دس سال تک حکمرانی کرنیوالے کامیاب حکمران کے طور پر جانے جاتے تھے۔پاکستان کے دیگر صوبوں میں شہباز گورننس ماڈل کی مثال د ی جاتی تھی۔بلکہ دیگر ممالک سے آنے والے سربراہان پنجاب کے طرز حکمرانی کی مثالیں دیتے تھے۔پاکستان کا پہلا ماس ٹرانزٹ منصوبہ شہبازشریف نے ہی پنجاب میں شروع کیا تھا۔بلکہ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک مغربی ملک کے مئیر لاہور تشریف لائے تو وہ لاہور کی ترقی اور ماس ٹرانزٹ منصوبے سے بے حد متاثر ہوئے او ر انہوں نے شہباز شریف سے ملاقات کے بعد تقریر کرتے ہوئے ایک تاریخی فقرہ کہا تھا کہ ترقی یافتہ ملک وہ نہیں ہوتے جہاں غریب گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں بلکہ ترقی یافتہ ملک وہ ہوتے ہیں جہاں امیر پبلک ٹرانسپورٹ میںسفر کرتے ہیں ،آج مرکز میں شہباز شریف کے ساتھ افسران کی جو ٹیم کام کررہی ہے،وہ وہی ہے جنہوں نے پنجاب میں شہباز گورننس ماڈل کی بنیاد رکھی تھی۔لاہور آج جس شکل میں ہمیں نظر آتا ہے،اس میں احد چیمہ کا کلیدی کردار ہے۔بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ احد خان چیمہ جدید لاہور کے معمار ہیں۔آج کل سول سروس کو خیبر با دکہہ کر سیاست میں آچکے ہیں اور شہبازشریف کابینہ کے اہم ترین وزیر ہیں ۔ وزیراعظم تمام اہم سمریاں انہی کی مشاورت کے بعد منظور کرتے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ،سی ڈی اے سمیت تمام بڑے ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کررہے ہیں۔اسی طرح سید ڈاکٹر توقیر شاہ جن کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے ہے،پنجاب میں تقریبا پانچ سال سے زائد شہباز صاحب کے پرنسپل سیکریٹری رہے۔آج کل مرکز میں وزیراعظم پاکستان کے سیکریٹری ہیں۔انتہائی دیانتدار اور قابل ترین افسر ہیں۔ان کی شاندار خدمات کے عوض ہی دو روز قبل انکی ریٹائرمنٹ سے قبل وزیراعظم نے مزید ایک سال کیلئے انکی خدمات حاصل کرلیں۔وزیراعظم کے بعد حکومت کے تمام نظام و انصرام کی ذمہ داری وزیراعظم کے سیکریٹری کے ذمہ ہوتی ہے۔شہباز شریف اور ڈاکٹر توقیر کاتین دہائیو ں کا تعلق ہے۔جب ڈاکٹر توقیر شاہ 1997میں پہلی مرتبہ اے سی تاندلیانوالہ سے وزیراعلی کے پی ایس او تعینات ہوئے تھے۔اسی طرح امدا د اللہ بوثال ،اسد گیلانی ،سمیر سیدسمیت انہی افسران کی ٹیم مرکز میں شہبا ز شریف کے ساتھ کام کررہی ہے ،انہی افسران کی شبانہ روز محنت سے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی کارکردگی کا جادو سر چڑھ کر بولا۔آج ان افسران کی مرکز میں صلاحیتوں کا امتحان ہے۔جب سے شہباز شریف نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا ہے،ہر دن کسی آزمائش سے کم نہیں رہا۔مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اب تک کسی بھی شعبے میں غیر معمولی کارکردگی نہیں دکھائی جاسکی۔معیشت کے حوالے سے تو عمران خان کا کردار سب کے سامنے ہے مگر جن شعبوں کو بہتر انتظامی فیصلے کرکے درست کیا جاسکتا تھا ،ان میں بھی اب تک کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھائی جاسکی۔اتحادی جماعتوں کا دباؤ اپنی جگہ مگر مسلم لیگ ن نے جو وزارتیں اپنے پاس رکھی ہیں ،ان میں تعینات افسران کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔اب تک مسلم لیگ ن کی مرکزی حکومت بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ شہبازشریف اور ان کے اردگرد افسران کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔اگر اسی رفتار اور اسی ماڈل کو آئندہ چند ماہ آگے چلایا تو کچھ بھی ہاتھ میں نہیں آئے گا۔شہباز صاحب کی اولین ذمہ داری ہے کہ اگر ان کی موجودہ سیاسی و انتظامی ٹیم کارکردگی نہیں دکھا پا رہی تو اس میں تبدیلی لے آئیں۔شہباز شریف اپنے سیاسی کئیریئر کی آخری دہائی میں ہیں۔ایسے میں نئے تجربات کرنےکےبجائے ماضی کے تجربات سے سیکھا جاتا ہے۔وزیراعظم صاحب کو چاہئے کہ اپنے مخلص دوستوں کے مشوروں کو اہمیت دیں۔ایسے لوگوں کی باتوں کو ہرگز نظر انداز نہ کریں جو ماضی میں آپ کے مفاد کو آپ سے زیادہ عزیزرکھتے تھے۔شہباز صاحب!آپ سے پہلے بھی بہت وزیراعظم گزرے ہیں۔بہت سو ںکے نام تو آپ کے سامنے بورڈ پر ضرور موجود ہیں مگر شاید آپ کو بھی ان میں سے بیشتر ذاتی طور پر یاد نہ ہو۔آج بھی پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نوازشریف صاحب کا نام سب کی زبان پرہے۔اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ دونوں نے ہمیشہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔میاں نوازشریف کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے وفادار ساتھیوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کیلئے ہر قربانی دے سکتے ہیں۔سب نے کہا مشاہد اللہ خان مرحوم اور پرویز رشید سے کنارہ کشی کرلیں مگر میاں نواز شریف مزید ڈٹ کر انکے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ وزیراعظم صاحب !اطلاعات ہیں کہ آپ کے اردگرد کچھ افراد آپ کو آپ کے مخلص ساتھیوں سے دور کررہے ہیں۔ایسے لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں کے بجائے مخلص ساتھیوں کے مشوروں کو ترجیح دیں۔ اگرانہی افسران کی ٹیم کیساتھ آپ وفاق میں پرفارم نہیں کرپارہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنی حکمت عملی از سر نو ترتیب دینےکی ضرورت ہے۔وگرنہ وقت کو تو آخر گزر ہی جانا ہے،کیونکہ وقت کبھی ایک سانہیں رہتا۔