جنگوں کی فطرت اور پاور شفٹنگ

December 29, 2022

کائنات کے آغاز سے ہی انسان ہوں یا ملک، ہمیشہ اپنے مفاد کو ترجیح دیتے آئےہیں۔ ملکوں کو بھی انسان چلا تے ہیں، اس لئے ملکوں کی پالیسیوں پر حکمرانوں کی شخصیت اور کردارکے گہرے نقش نظر آتے ہیں۔ سیلف انٹرسٹ انسانی فطرت ہے ،جب سیلف انٹرسٹ سیلفش نیس میں ڈھلتا ہے تو دوسروں کی حق تلفی کا باعث بنتا ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت اور برتری کی خواہش نے انسان کو ایجادات پر مجبور کیا ، سوئی سے ہوائی جہازاور جدید ٹیکنالوجی تک جو چیز بھی ایجاد ہوئی وہ جنگی برتری کے تناظر میں ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ بعد ازاں اس کے مثبت استعمال کے طریقے بھی تلاش کئےگئے۔ جوہری توانائی بھی تباہی اور دوسروں پر سبقت کی غرض سے معرضِ وجود میں لائی گئی البتہ بعد میں اس کا مثبت توانائی کے ذرائع میں استعمال بھی شروع کیا گیا۔ آج تک دنیا میں ایسا کوئی اسلحہ نہیں بناجو اب تک استعمال نہ ہوا ہو، یہاں تک کہ عالمی جنگِ عظیم دوم میں امریکہ کی طرف سے دشمن کو ختم کرنے کیلئے ناگاساکی اور ہیرو شیما پر نیوکلیئر ہتھیاربھی آزمائے جا چکے ہیںجن میں لاکھوں لوگ پگھل گئے اور جاپان کو سرنڈر کرنا پڑا۔ رعونت پسند ہٹلر، اسٹالن اور ان جیسےدوسرے خود سر، خود غرض حکمراںماضی میں اقوامِ عالم کو عالمی جنگوں میں جھونک چکے ہیں۔ اگر ہٹلر جیسے حکمران کے ہاتھ میں جوہری ہتھیار ہوتے تو دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ خودکشی کی بجائے نتائج سے بے نیاز ہو کردشمن کو تباہ کرنے کیلئے ایٹمی حملے کا مرتکب ہو چکا ہوتا اور آج تاریخ مختلف ہوتی۔

امریکہ ایک زمانےمیں واحد نیوکلیئر پاور تھا جس کے بل پر وہ پوری دنیا کو ہانک رہا تھا۔ اس کی فوجی قوت اس کی معاشی طاقت کا سرچشمہ تھی۔ امریکہ دنیا بھر میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا فروخت کنندہ تھا۔ ایک طرف وہ دنیا بھر کو اپنا جدید اسلحہ فروخت کر رہا تھا تو دوسری طرف عالمی امن کا کھوکھلا نعرہ لگا کر سی ٹی بی ٹی پر عمل درآمد کا ڈرامہ رچارہا تھا لیکن اپنی جوہری قوت کی قربانی سے گریزاں رہا۔مارشل آرٹس میں بلیک بیلٹ کا حامل روسی صدر پیوٹن روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کا ہیڈ تھا،جو گزشتہ 20سال سے وزارتِ عظمی اور صدارت کے عہدہ پر متمکن ہے، اس کے اندازِ حکمرانی میں اس کے ماضی کی واضح جھلک نظر آتی ہے ۔ اس کے باوجود کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس اپنی حیثیت کھو چکا تھا ، روس نے اپنی طاقت کو مجتمع کیا اور آج یورپ سمیت امریکہ تک کو آنکھیں دکھارہا ہے۔ حالیہ یوکرین تنازعہ میں نیٹو ممالک پیوٹن کی جانب سے کسی جوہری ردِ عمل سے خوفزدہ ہیں۔ پیوٹن خود بھی بیرونی مداخلت کی صورت میں جوہری حملے کی دھمکی دے چکا ہے۔ بھارتی وزیرِ اعظم جس کی کوئی بیوی ہے نہ بچے ، انتہاپسند ہندو جماعت آ ر ایس ایس کی پیداوار ہے ۔گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کا ذمہ دار قرار پانے والے نریندرا مودی کی شِدت پسندسوچ کے عملی مظاہر کشمیر میں دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔پاکستان جیسے ہمسایہ ملک کو اس کی جارحیت پسند سوچ سے شدید خطرات لاحق ہیں لیکن اصل پریشانی کی بات یہ ہے کہ مقابلہ میں پاکستان کے پاس بھی جوہری ہتھیارہیں جن کا کنٹرول فوج کے ہاتھوں میں ہے، ایسے میں مودی کی کوئی بھی مہم جوئی ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ فوجی کبھی میدانِ جنگ کے علاوہ شکست تسلیم نہیں کرتا۔

شمالی کوریا کے کِم جونگ کا آمرانہ اندازِ حکمرانی دنیا سے ڈھکا چھپا نہیں ۔شمالی کوریا میں اس کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں ما رسکتا ۔ اگر غلطی سے بھی کوئی اس کی منشا کے خلاف کچھ کر بیٹھے تو وہ اسے نشانِ عبرت بنا دیتا ہے۔ ایسے جابرحکمراں سے کیا توقع کہ کب وہ طیش میں آ کر کیا کر گزرے ،امریکی صدر جوبائیڈن مختلف ادوار میں سینیٹر اور دیگر اہم عہدوں پر فائز رہ چکا ہے لیکن انتہائی کمزور صدر ثابت ہوا ہے ایسا لگتا ہے کہ جوبائیڈن کی حکومت پینٹاگون ٹیک اوور کر چکا ہے ۔ کسی سیاسی حکمراں کے اندازِ فکر اور فوجی افسر کے سوچنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ سپر پاور کبھی کسی رائزنگ پاور کو آسانی سے تسلیم نہیں کر پاتی جب تک اسے شکست سے دو چار نہ ہونا پڑ جائے۔

چینی صدر ژی جن پنگ ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد موجودہ مقام پر فائز ہوا ہے۔ اس کی شخصیت پر مائوزے تنگ کے گہرے نقوش ثبت ہیں۔ اس کے والد کمیونسٹ پارٹی کی اہم شخصیت تھے جو مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے لیکن سیاسی مخاصمت کا شکار ہوکر قتل ہوئے، یہاں تک کہ ژی جن پنگ کی چھوٹی بہن بھی سیاسی حریفوں کا نشانہ بنی ۔ صدر ژی نے یوتھ لیگ میں شمولیت کے لئے 7بار اور سینٹرل پارٹی میں شمولیت کے لئے 10بار ناکامی کا منہ دیکھا لیکن اس کا کرپشن کے خلاف سخت ترین مؤقف اس کی عوامی مقبولیت کا باعث بنا ۔صدرژی چین کی ترقی پسند سوچ کا محرک بن چکا ہے، جو دنیا بھر میں تیزی سے اپنا اثر و رسوخ قائم کر رہا ہے ۔ دنیا پولیٹیکل اینڈ اکنامک پاور شفٹنگ کے عمل سے گزر رہی ہے اور پاورشفٹنگ کا عمل کبھی پر امن نہیں رہا۔یہ دنیا کو ایک نئی عالمی جنگ کا راستہ دکھا سکتاہے۔ یہ دنیا محض اللہ کے فضل کے باعث اب تک کسی بڑی تباہی سے محفوظ ہے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)