مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا

January 13, 2023

ایک تاریخ ہوتی ہے اور ایک چلتی پھرتی تاریخ ، ان کے ذہن میں موجود یاد داشتیں ہوں یا ان کے لفظ اگلتے قلم ، تجربہ اور تاریخ دونوں ساتھ ساتھ آنکھوں کو خیرہ کر ڈالتے ہیں ۔ الطاف حسن قریشی ایسے ہی معتبر اہل قلم ہیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ مسلمان دنیا کی تاریخ کا بھی ایک المناک سانحہ ہے ۔ ایسا کیوں ہوگیا؟ اس کو سمجھنے کی غرض سے الطاف حسن قریشی کے اس دور میں سپرد قلم کئے گئے مضامین کو يکجا کرتی ہوئی کتاب’’ مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا ‘‘ سامنے آئی تو گویا اس دور کی جیتی جاگتی تصویر سامنے آ کھڑی ہوئی ۔ قیام پاکستان سے لے کر ملک میں ہونے والے پہلے عام انتخابات ،عام انتخابات سے لے کر سانحہ سقوط ِڈھاکہ اور پھر شیخ مجیب کے دور کا احاطہ کرتے ہوئے یہ مضامین سبق نہیں بلکہ اسباق ہیں کہ جن سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر اس کتاب میں شیخ مجیب کے ایک انٹرویو اور پھر اس پر ہوئے تنازع کے حوالے سے درج ہے کہ قریشی صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے شیخ مجیب نے کہا تھا کہ انیس سو چھپن کا دستور بحال کردیا جائے تو آئین سازی میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے مگر پھر شیخ مجیب اپنی ہی بھڑکائی شوریدہ سری جو ان کے حامیوں کے مزاج میں رچ بس گئی تھی، سے گھبرا کر یو ٹرن لے کر اپنی بات سے مکر گئے ۔ یوٹرن لینا سیاستدانوں کی خوبی نہیں بلکہ خامی ہوتی ہے کہ وہ اپنےالفاظ کا بھی پہرا دینے کے قابل نہیں ہیں مگر شیخ مجیب کی اس غلط بیانی کا بھانڈا حسین شہید سہروردی کی صاحبزادی بیگم اختر سلیمان ،جو اس انٹرویو کے دوران موجود تھیں، نے پریس ریلیز جاری کرکے پھوڑ دیا کہ مجیب نے وہی کچھ کہا جو شائع ہوا ہے۔ جھوٹ پر جھوٹ بولنا اور سیاستدانوں پر كکرپشن کا الزام عائد کر کے کردار کشی کرنے کا ذکر کرتے ہوئے 1954 کے انتخابات کے موقع پر اس پروپیگنڈے کا ذکر کیا ہے کہ جس میں رتی برابر بھی صداقت نہیں تھی کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ مشرقی پاکستان نور الامین عوام کا خون چوس کر اتنے امیر ہو گئے کہ انہوں نے میمن سنگھ میں جو نیا مکان تعمیر کروایا، اس کے بیت الخلا میں بھی سونے کی ٹائلیں نصب ہیں۔ ان انتخابات نے مشرقی پاکستان کی سمت متعین کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا، اس وقت سے حقیقی سیاسی شخصیات کیخلاف ایسا ہی بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جارہا ہے مگر جب خورد بین لگا کر ایک ایک چیز کھنگال لیتے ہیں تو پھر بیٹے سے اقامہ لینے کے علاوہ اور کوئی جرم سامنے نہیں لا پاتے۔ عام انتخابات تک اور بعد میں مشرقی پاکستان میں جو کچھ وقوع پذیر ہوا اس میں اس وقت کی آمرانہ سوچ کو زبردست دخل حاصل تھا اور مشرقی پاکستان میں موجود شیخ مجیب کے مخالف سیاسی زعما بھی اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ اگر باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک نہ ہوئے تو شیخ مجیب مشرقی پاکستان میں تنہا ہی کامیاب ہو جائے گا ورنہ30سے 40نشستوں پر متحد ہو کر کامیابی حاصل کی جا سکتی تھی ۔ تنہا جماعت اسلامی ہی45نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھی اور دوسرے نمبر پر ہوتے ہوئے وہ چالیس چالیس ہزار ووٹوں کے ساتھ تھی اور یہ بھی ایسی صورت میں ہوا تھا کہ جب عوامی لیگ نے وہاں پر اپنے سوا کسی دوسرے کو انتخابی مہم چلانے ہی نہیں دی تھی بلکہ مولانا مودودی جیسی سربرآوردہ شخصیت کے پلٹن میدان کے جلسے پر حملہ آور ہو کر یہ واضح پیغام دے دیا تھا کہ وہ کسی اور کو سیاسی میدان میں کھل کر مقابلہ کرنے ہی نہیں دےگی ۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان کے حامیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ،اس کا ذکر کرتے ہوئے مولانا عبدالستار جو ضلع باریسال کے ممتاز عالم دین تھے،وہی ضلع باریسال جس میں سقوطِ ڈھاکہ کے دن تک مساجد میں پاکستان کیلئے دعا کی جا رہی تھی، کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ منظر دکھایا ہے کہ مکتی باہنی نے مولانا کو دبوچ لیا، ان کی داڑھی نوچ ڈالی اور پھر دونوں ہاتھوں کو کاٹ ڈالا گیا کہ انہیں ہاتھوں سے پاکستان کے حق میں دعا کیا کرتے تھے، بعد میں مولانا پابند سلاسل کر دیے گئے ۔ مشرقی پاکستان ایک ٹوٹا ہوا تارا، ایک تاریخی المیہ، اس المیہ سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ سیاستدانوں کو سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے اور پھر مکرنے سے ،یوٹرن لینے سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہئے ۔ صرف سیاست دانوں پر مالی بد دیانتی کے الزامات عائد کر کے ملک میں معاشی بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ ان کے بیت الخلامیں سونے کی ٹائلوں کے افسانے گھڑ نے سے صرف ان کو ہی نقصان نہیں پہنچتابلکہ قوم لٹ جایا کرتی ہے اور پھر کسی مولانا عبدالستار کے ہاتھ کو قطع کرکے جیل کی کال کوٹھری تک پہنچا دیا جاتا ہے کہ جس کا قصور صرف وطن سے محبت ہوتا ہے۔