سیاسی انتقام اور امن و امان

February 05, 2023

سانحۂ پشاور میں شہید ہونے والے تربیت یافتہ پولیس افسروں کی بڑی تعداد نے جہاں پور ے ملک کو سوگوار کر دیا وہاں امن و امان کی صورت حال پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ پولیس لائن جیسی محفوظ جگہ کی مسجد میں ایک شخص تمام سیکورٹی چیکنگ پوائنٹس کو کراس کر کے خود کو بلاسٹ کر کے سو سے زائد افراد کی جان لے لیتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ ہمارے جوان جو عوام کی حفاظت پر مامور ہیں، ان کی اپنی جان خطرے میں ہے۔ تھانوں پر حملے ہو رہے ہیں جب عوام عدم تحفظ کا شکار ہوں گے تو مجموعی امن و امان کی صورت حا ل کا لیول کیا ہو گا؟ جب کوئی سانحہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو وقتی طور پر جذبات میں اُبال آتا ہے اور نوٹس لینے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے مگر پھر طویل خامشی ۔ یہ واحد ملک ہے جہاں سیکورٹی پر مامور اہل کار ڈیوٹی کی انجام دہی کے دوران اپنا موبائل فون استعمال کرتے ہوئے نظرا ٓتے ہیں، قانون نافذ کرنے والے قانون شکنی کے مرتکب پائے جاتے ہیں ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قانون کی تابعداری کا احساس من حیث القوم عنقا ہے۔ لہٰذا اسی کا فائدہ اٹھا کر دہشت گرد اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ پشاور میں خود کش حملہ آور کی پولیس یونیفارم میں پولیس لائن میں بغیر چیکنگ کے داخلے کی خبریں میڈیا میں آ رہی ہیں، حیرانی کی بات یہ ہے کہ چیک پوسٹ پر پولیس لائن میں داخل ہونے والے پولیس مین کو کیوں چیک نہیں کیا گیا اور پھر ایک چیک پوسٹ نہیں تمام چیک پوسٹوں پر یہی ہوا۔

بات احساس ذمہ داری کی ہو رہی ہے، ہم اگرقومی سطح پر دیکھیں تو کسی کو بھی کسی چیز کا احساس نہیں ہے ۔ سیاسی دھینگا مشتی میں مصروف حکومتِ وقت نہ امن و امان کی صورتِ حال پر توجہ دے رہی ہے اور نہ ہی مہنگائی کا خاتمہ اس کی ترجیح ہے ۔ عوام مہنگائی کی چکی کے دونوں پاٹوں میں بری طرح پس رہے ہیں ،ان کی چیخیں عرش تک پہنچ رہی ہیں ، کسی کو اگرسنائی نہیں دے رہیں تو وہ صرف ہمارے حکمران ہیں، جو اپنی کرسی کی بقا کے لیے جدو جہد میں مصروف ہیں۔ اس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ آج کل جس طرح مخالفین کو گرفتار کر کے سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کا مرحلہ شروع ہوا ہے اس نے چادر اور چار دیواری کے تحفظ کے احسا س کو تا ر تار کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں سابق وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کو جس طرح رات کے اندھیرے میں گرفتار کر کے اورہتھکڑی لگا کر عدالتوں میں گھسیٹا گیا اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ پاکستان ابھی تک جدید فلاحی ریاست کے راستے سے کوسوں دور ہے اور جمہوریت کا صرف لبادہ اوڑھا ہوا ہے ورنہ یہاں پر کسی کو اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ وہ تو شکر ہے عدلیہ میں ایک نئی لہر پید ا ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کور یلیف مل رہا ہے جسے ریلیف مل جاتا ہے وہ عدلیہ کے گن گانے لگ جاتا ہے اور جو رہ جاتا ہے وہ شاکی ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح سابق وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے اکلوتے عہدیدار شیخ رشید احمدکو رات کے اندھیرے میں گرفتار کر کے ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مخالفین کو گرفتار کرنے کی بجائے دہشت گردوں کو گرفتار کرنے پر توجہ دے۔

تحریک انصاف جلد از جلد انتخابات کے انعقاد کا متواتر مطالبہ کر رہی ہے جب کہ حکمران اتحاد پی ڈی ایم کی کوشش ہے کہ کسی طرح انتخابات کو کم ازکم ایک دو سال کے لیے ملتوی کر دیا جائے۔ عام آدمی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات کب ہوتے ہیں اس کا خیال تو صرف یہ ہے کہ مہنگائی کم ہو اور امن و امان قائم ہو مگر بظاہر حکمرانوں کو ان دونوں چیزوں کے بارے میں کوئی فکر نہیں ۔ ان کا صرف یہ یک نکاتی ایجنڈا ہے کہ ان کی حکمرانی برقرار رہے عوام جائے بھاڑ میں۔ اگر یہی سوچ رہی تو پھر معاشرے میں کسی کا احترام برقرار نہ رہے گا اور ملک انارکی اور سول وار کی طرف بڑھتا ہوا نظر آئے گا اور ہم جیسا معاشرہ ،جو چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے، برداشت نہ کر سکے گا۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سب سے اہم کردار حکومت کو ادا کرنا پڑے گا۔ ایک قدم آگے بڑھا کر اپوزیشن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا پڑے گا۔ گراس روٹ لیول پر عوامی نمائندگی کا احساس اجاگر کرنے کے لیے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کروا کے عوام کو اقتدار میں شریک کیا جائے۔ آج کے جمہوری اور جدید دور میں سیاسی انتقام کی بجائے عوامی خدمت کے جذبے کے تحت ڈیلیور کرنے کے جذبے سے کام کیا جائے تو سیاسی استحکام اور سیاسی ترقی نصیب ہو گی۔ ورنہ فواد چوہدری، شیخ رشید یا عمران خان کو گرفتار کرنے سے حکومت کا انتقامی جذبہ تو پورا ہو سکتا ہے مگر سیاسی استحکام حاصل نہ ہو گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)