بڑی تباہی کی چھوٹی چھوٹی داستانیں

February 06, 2023

(گزشتہ سے پیوستہ)

بڑی تباہی کی چھوٹی چھوٹی داستانوں کا حاصل وصول یہ ہے کہ اب سعودی عرب بھی ہمیں غیر مشروط امداد دینے کو تیار نہیں۔ اسحاق ڈالر صاحب! امریکی حکام کے گھٹنوں کو ہاتھ تک لگا چکے کہ آئی ایم ایف کی سر پر لٹکتی تلوار ہٹانے میں ہماری مدد کرو۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسے معاشی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں لیکن آپ کو عالمی مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط بھی پوری کرنا ہوں گی۔ تب ہی مزید قرضے ملیں گے۔ ہم کشکول اٹھائے قطر کے پاس بھی جا پہنچے ۔ ارادہ یہ ہے کہ ایل این جی ٹرمینل قطر کو فروخت کرکے کچھ ڈالر حاصل کرسکیں۔ اب تقریباً سبھی دوست ممالک شاید یہ چاہتے ہیں کہ ہماری ڈوبتی کشتی میں پڑے اثاثے اونے پونے داموں ان کے ہاتھ لگیں اور پاکستان کی مستقبل میں ایسی مشکیں کسی جائیں کہ دوبارہ اپنے پاؤں پرکھڑا نہ ہوسکے۔ فرض کریں کہ اتحادی حکومت اپنی تمام تر سیاسی جمع پونجی داؤ پر لگا کر آئندہ چھ ماہ کے لئے چند ارب ڈالر اکٹھے بھی کرلے تو یہ سوال پھر بھی اژدھا بنا سامنے کھڑا ہے کہ کیا ہم اپنی معیشت بچا پائیں گے یا ہم مستقبل میں ڈیفالٹ نہیں ہوں گے۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ہم کشکول اٹھائےجہاں جاتے ہیں، ہر دروازے کے باہر لکھا ہے کہ آج نقد کل ادھار۔ ادھار مانگ کر شرمندہ نہ ہوں۔ ہماری اندرونی سیاسی صُورت حال یہ ہے کہ ایک جماعت تحریک انصاف گزشتہ ایک سال سے الیکشن الیکشن کھیل رہی ہے۔ دو بڑی صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے بعد خان صاحب اور ان کے رفقاءکار در بدر ہیں الیکشن کمیشن کو دھمکیاںدے کر متنازعہ بنایا جارہا ہے ۔ فوادچودھری اس الزام میںدھر لئے گئے لیکن خان صاحب جنہوں نے اقتدار کھو جانے کے بعد مسلسل حساس اداروں کی شخصیات، چیف الیکشن کمشنر اور عدلیہ تک کو فواد چودھری سے زیادہ سنگین دھمکیاں دیں، ابھی تک آزاد گھوم رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی میں ہمت نہیں کہ مجھے گرفتار کرسکے، اداروں کو متنازعہ بنانے کی یہ روش ہمیں کس انجام تک پہنچائے گی ،یہ نوشتہ دیوار آج ہی پڑھ لیں تو بہتر ہے کل کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ بڑی تباہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم گوڈے گوڈے کرپشن میں دھنس چکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ شہر میں کوئی جیب کترا پکڑا جاتا تو شور مچ جاتا ، اخبارات میں خبر چھپتی تو غور سے پڑھتے کہ کس کی جیب کٹی اور کتنے روپے کا نقصان ہوا۔ کوئی کلرک بادشاہ نشان زدہ نوٹوں کی رشوت لیتے پکڑا جاتا تو اسے سزاملتی، نوکری سے فارغ بھی کیا جاتا۔ آج کے بنارسی ٹھگ بڑے نرالے ہیں۔ وہ خوشبو والا رومال سُنگھا کر عوام کو لوٹتے ہیں، رنگے ہاتھوں پکڑے بھی جاتے ہیں، سالہا سال پیشیاں بھگتتے ہیں، مہنگے وکیل ان کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔

معزز جج صاحبان سب حقائق بھی جانتے ہیں، ایک عدالت سے دوسری اور پھر تیسری عدالت تاریخ پر تاریخ پڑتی جاتی ہے۔تیسری عدالت پہلی عدالتوں کے فیصلے مسترد کرکے ایک نیا فیصلہ سنا دیتی ہے۔ کھیل ختم پیسہ ہضم۔ سب اپنے اپنے گھر ،ہر ایک کی نوکری روزی روٹی چل رہی ہے۔ نہیں چل رہی تو صرف اس ملک اور عوام کی گاڑی نہیں چل رہی۔ بڑی تباہی کی چھوٹی چھوٹی داستانوں میں توانائی کے شعبے میں اربوں روپے کی لوٹ مار کی ایک چھوٹی سی جھلک گزشتہ سے پیوستہ دکھائی جارہی ہے کہ کرپٹ مافیا ہمارے ملک کی معاشی جڑیں کس بُری طرح کھوکھلی کرچکا ہے۔ دروت ڈیم کی تعمیری لاگت جو پی سی ون کے مطابق تین ارب روپے تھی 9 ارب سے تجاوز کرچکی ہے۔ نئی گنج ڈیم16 ارب 92 کروڑ کی بجائے 46 ارب 96 کروڑ میں مکمل کیا گیا جبکہ کچھی کینال کی تعمیری لاگت میں بدعنوانی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ اس کینال کی تعمیر پر 49 ارب روپے کی اضافی رقم خرچ کی گئی۔ دریائے سندھ پر خان خواڑ پن بجلی منصوبہ بھی کرپشن کی کان بنا رہا۔ یہ منصوبہ 8 ارب 57 کروڑ سے 16 ارب 25 کروڑ تک جا پہنچا اور تعمیری لاگت دوگنا بڑھ گئی۔ منصوبے کے لئے ناقص مشینری کی درآمد کا معاملہ بھی دبا دیا گیا۔ اس منصوبے سے بجلی تو نہ ملی مگر لاگت 10 ارب روپے ضرور بڑھ گئی۔ اسی طرح دبیر خواڑ منصوبے کی لاگت میں 14 ارب59 کروڑ کا اضافہ ہوا۔ جناح بجلی منصوبے میں قومی خزانے کو 3 ارب 93 کروڑ کا جھٹکا لگایا گیا۔ نیلم جہلم پن بجلی منصوبے کی تعمیر میں کرپشن کی نئی داستانیں رقم ہوئیں۔ منصوبے کی لاگت 7 گنا بڑھا دی گئی۔ ٹنل بورنگ مشین میں 9 ارب روپے کی مبینہ خورد بردکی گئی۔ منصوبے کی ابتدائی لاگت 84 ارب روپے تھی مگر یہ منصوبہ 5سو ارب کی خطیر لاگت سے مکمل کیا گیا اور ابھی تک اس منصوبے کے فنی نقائص ختم نہیں ہو رہے اور اب تک کسی بھی مرحلے پر پوری استعداد سے بجلی پیدا نہیںکی جاسکی۔ دیامربھاشا ڈیم اراضی خریداری میں مبینہ کرپشن کے قصے زبان زدِ عام ہیں۔ چند ہزار روپے فی کنال اراضی کا ریٹ لاکھوں روپے لگایا گیا جس کی وجہ سے منصوبے کی لاگت 9سو ارب سے 23 سو ارب تک پہنچ چکی ہے۔ داسو پن بجلی منصوبے کی لاگت میں 24ارب روپے کا اضافہ کردیا گیا جبکہ تربیلا چوتھے توسیعی منصوبے پر83 ارب کی بجائے 116ارب خرچ کردیئے گئے۔ بڑی تباہی کی ان چھوٹی چھوٹی داستانوںپر انصاف بھی خاموش ہے۔ (جاری ہے)