مشرف مرحوم، پسندیدہ بھی ناپسندیدہ بھی

February 09, 2023

مجھے یاد آرہا ہے کہ کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں عالمی بینک کی اعلیٰ عہدیدار خاتون چار پانچ ایڈیٹرز سے آف دی ریکارڈ گفتگو کررہی ہیں۔ دَور صدر جنرل پرویزمشرف کا ہے۔ وہ کہہ رہی ہیں، پاکستان میں ہمارے لئے یہ مثالی وقت ہے۔ جب ایک ہی شخص ملک کا صدر بھی ہے، چیف ایگزیکٹوبھی اور آرمی چیف بھی۔ ہمیں صدر سے الگ، وزیر اعظم سے الگ اور آرمی چیف سے الگ الگ ملنا پڑتا ہے اور ہمیں یقین نہیں ہوتا کہ ہم سے کئے گئے وعدے پورے ہونگے یا نہیں۔ معاہدوں پر عمل ہوگا یا نہیں۔

پاکستان میرے خیال میں واحد ملک ہے جہاں غیر ملکی سربراہوں۔ حکومتوں کے خاص نمائندوں۔ وزرائے خارجہ کو سیاسی قیادت سے الگ اور فوجی قیادت سے الگ ملنا پڑتا ہے۔ ورنہ عام طور پر صدر یا وزیر اعظم جو بھی اس ملک میں سربراہ حکومت ہو، اس سے ملاقات پوری ریاست سے رابطہ خیال کی جاتی ہے۔12اکتوبر 1999 ءسے اگست 2008 ءتک پاکستان کے سربراہ رہنے والے جنرل پرویز مشرف کو شہر قائد میں پورے احترام کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا۔ پاکستان کے ہر سیاسی اور فوجی سربراہ کی طرح پرویز مشرف بھی ایک متنازع حیثیت رکھتے ہیں۔ 75سال سے ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی حکمران بھی سارے پاکستانیوں کا متفقہ لیڈر اور سب کے لیے قابل قبول شخصیت نہیں رہا۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے۔ حکمرانوں کے علاوہ بھی کسی شعبے میں بھی کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جس کا سب احترام کرتے ہوں۔ اس رجحان کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس مملکت خداداد میں محاذ آرائی ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ اگر صرف سیاسی محاذ آرائی ہو تو بھی قابل برداشت ہے۔ لیکن دشنام طرازی شروع ہوجاتی ہے۔ اب جنرل پرویز مشرف کے انتقال کے بعد سوشل میڈیا پر مرحوم کے لئے بھی اس قسم کے الفاظ۔ القاب۔ اور دشنام دیکھنے سننے کو مل رہے ہیں۔

ہماری قوم عشاق کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔ جس کو پسند کرنا ہے۔ اسے ہر ادا سے چاہنا ہے۔ وہ آپ کا محبوب بن جاتا ہے۔ وہ غلط کرے یا درست۔ آپ اپنے آپ کو اس کے سپرد کئےرکھتے ہیں اور جو آپ کو پسند نہیں ہے وہ کتنے اچھے کام بھی کرے اس کیلئے کوئی احسن جملہ نہیں بولا جائے گا۔ ہم ہیرو تراشتے ہیں یا ولن۔سوشل میڈیا پر دو تین دن سے یہی مشاہدہ ہورہا ہے کہ دبئی میں آخری سانس لے کر رخصت ہونے والا کسی کا ہیرو ہے اور کسی کا ویلن۔ یہ رشتہ بھرپور جذباتی انداز میں نبھایا جارہاہے۔

بہت سےویلن دوسروں کے نزدیک ملک کے لئےآخری امید رہے ہیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان یاد آتے ہیں۔ وہ اچانک کسی حاکم وقت کے لئے یہ فیصلہ لے کر آجاتے تھے ،’’ جناب۔ یہ حکمران اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘پھر آسمان کی آنکھ نے یہ بھی دیکھا کہ وہ اسی سابق حکمران کے ساتھ نئے حاکم وقت کے خلاف اتحاد قائم کرکے میدان میں آجاتے تھے۔ بھٹو صاحب کے خلاف پی این اے کی کامیاب مہم چلاکر۔ پھر بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ تحریک بحالیٔ جمہوریت کا جادہ پیما کیا گیا۔ اس میں وہ سب معزز قائدین تھے جو بھٹو حکومت کے خلاف تحریک میں پیش پیش تھے اور فوجی حکمران سے جلد پھانسی کا مطالبہ بھی کررہے تھے۔یہ سب حکمران ہماری تاریخ کے حقیقی کردار ہیں۔ یہ جس جس عرصے پر مسند نشیں رہے وہ ان سے ہی منسوب رہے گا۔ ایک ذمہ دار باشعور قوم حکمرانی کے مختلف ادوار کا غیر جانبدارانہ جائزہ لے کر یہ دیکھتی ہے کہ ان کے کون سے اقدامات بروقت تھے۔ ملک کے مفاد میں تھے اور کون سے ملک کے مفاد کو نقصان پہنچاگئے۔

مورخ کو تو بہت ہی غیر جانبدار اور بے رحم ہونا چاہئے۔ ایک محب وطن اور درد مند شہری کا معیار تو یہ ہوتا ہے کہ وہ دیکھتا ہے کہ کوئی بھی حکمران چاہے وہ منتخب ہوکر آیا یا اس نے بزور شمشیر ملک پر قبضہ کیایا اس نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ملک کا نظم و نسق سنبھالا۔ اس وقت ملک کی جو ضروریات تھیں، جو اقدامات ناگزیر تھے وہ اس نے پورے کئے یا نہیں۔ سب سے اولیں تو یہ کہ شہریوں کی زندگی آسان کرنے کے لئے اس نے کوئی سسٹم قائم کیا یا نہیں؟ سر زمین بے آئین کو متفقہ، منظور شدہ آئین دیا۔ پھر اس آئین پر خود عملدرآمد کیا یا نہیں؟عوام کی بنیادی ضروریات، آٹا، چاول، چینی ،چائے، سبزیاں، دالیں، گوشت ان کی قوت خرید کے اندر رہے یا نہیں، لوگوں کی اکثریت اپنے بچوں کو تعلیم آسانی سے دلواسکی یا نہیں۔ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے یا نہیں۔ اپنے ملک کی کرنسی کو کتنی طاقت دی۔ ڈالر کے مقابلے میں اس کی کیا حیثیت رہی؟ ملک اگربنیادی طور پر زرعی ہے تو زراعت کے شعبے میں کیا اصلاحات کیں؟ فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لئے کیا تجربات کئے؟ کاشتکاروں کو کیا مراعات دیں؟ اپنی ملکی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اناج کی برآمد بھی ممکن بنائی۔ توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کیاکیا متبادل اقدامات کئے۔ پیٹرول کی قیمت پر قابو رکھا۔ ملک میں قدرتی وسائل کی دریافت اور ان کے استعمال کے لئےکیا منصوبے بنائے؟

ہمارے ہاں جمہوریت اور آمریت کے درمیان محاذ آرائی رہی ہے۔ جمہوریت کی بحالی کے لئے کتنے جوان تاریک راہوں میں مارے گئے۔ زیادہ تر پاکستانیوں کو اس بحث میں الجھایا گیا اور اچھی بری حکمرانی میں امتیاز نہیں کرنے دیا گیا۔ اس وقت پاکستانیوں کی اکثریت کی زندگی میں عمدگی بالکل نہیں رہی ہے۔ قرض کی مے پیتے رہے ہیں۔ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ ہماری فاقہ مستی رنگ لائے گی۔ اس وقت قرض پہ وقت گزارنے کی عادت رنگ لارہی ہے۔ اس وقت ہم جس بحران کا سامنا کررہے ہیں، یہ گزشتہ تین چاردہائیوں کی مسلسل خراب حکمرانی کانتیجہ ہے۔ ہمیں کسی ایک حکمران پر ذمہ داری ڈالنے کی بجائے سب کی حکمرانی کا جائزہ لینا چاہئے۔ حکمران طبقے اور اشرافیہ کی خواہش تو یہ ہے کہ ہماری اکثریت ان کی بے دام غلام رہے۔ ان کے قصیدے پڑھے اور مخالفین کو گالیاں دے۔ اپنے بچوں کو بھول جائے۔ اپنی ضروریات کی فکر نہ کرے۔میں سمجھتا ہوں کہ صدر پرویز مشرف نے اپنے دَور میں ملکی اور عالمی سطح پر بہت سے ایسے جرأت مندانہ اقدامات کئے جو وقت کا تقاضا تھے۔ وہ فوجی حکمران تھے۔ ان کو ہماری سپریم کورٹ نے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا تھا۔ ہر حکمران کی طرح ان کے اچھے اقدامات بھی ہیں اوریقیناً بہت سی غلطیاں بھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے قابل قدر اقدامات کے ثمرات اور غلط کے منفی اثرات بھی سامنے آئیں گے۔

اصل احتساب تو خالق حقیقی کی عدالت میں ہوگا۔ ہمیںمرحوم سمیت تمام شخضیات کے لئے معروضی انداز فکر اختیار کرنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے۔ ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا کرے۔ ایک عہد رخصت ہوگیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)