مسلم لیگ ن جام پور میں کیوں ہاری؟

March 06, 2023

پنجاب مسلم لیگ ن کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔عمومی تاثر ہے کہ جو جماعت پنجاب میں حکومت بناتی ہے،مرکز اسی کے حصے میں آتا ہے۔ مسلم لیگ ن کو ہمیشہ الیکٹیبلز کا مسئلہ در پیش رہا۔جنوبی پنجاب میں ایسے گھرانوں پر اکتفاء کیا گیا ،جنہیں خود بھی یاد نہیں ہوتا کہ انہوں نے آخری الیکشن کس جماعت کے ٹکٹ پر لڑااور آئندہ الیکشن کس جماعت کے ٹکٹ پر لڑنا ہے۔میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے ایک لمبے عرصے تک جنوبی پنجاب کی حکمرانی سردار ذوالفقار کھوسہ کے حوالے کئے رکھی۔پورے جنوبی پنجاب میں ذوالفقار کھوسہ کا سکہ چلتا تھا،مسلم لیگ ن میں ان کا کوئی سیاسی مقابل نہیں تھا۔مگر پھر 2008کے بعد ذوالفقا ر کھوسہ کے سیاسی رویے میں تبدیلی آئی۔بیٹے کو وزیراعلیٰ بنانے کے بعد ان کا سیاسی زوال شروع ہوا۔بہرحال کھوسہ خاندان کے مسلم لیگ ن سے جانے کے بعد میاں شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب بہت محنت کی اور جنوبی پنجاب میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے۔2010کے بدترین سیلاب کے بعد جنوبی پنجاب کے لوگوں کی ایسی خدمت کی کہ پورے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں الیکٹیبل زکی بلیک میلنگ ختم ہوگئی۔بلکہ ہر الیکٹیبل نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کی خواہش کرنا شروع کردی۔مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے بغیر کسی الیکٹیبل کا جیتنا ممکن نہیں تھا۔یہ 2008سے2018کا وہ وقت تھا کہ جنوبی پنجاب کے تمام بڑے خاندان مسلم لیگ ن میں آنے کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ایسے میں لمبے عرصے تک مسلم لیگ ن کے سیاسی مخالف لغاری خاندان نے مسلم لیگ ن میں آنے کی خواہش کا اظہار کیا۔چونکہ کھوسہ خاندان اپنی نادانیوں کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو خیر باد کہہ رہ تھا اور سردار فاروق لغاری مرحوم کے بیٹےنے بھی تازہ تازہ تحریک انصاف چھوڑ ی تھی ۔

اویس لغاری کے آنے کے بعد مسلم لیگ ن جنوبی پنجاب بالخصوص ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں مضبوط نہ ہوسکی۔ذوالفقار کھوسہ صاحب نے جو غلطیاں اپنے مسلم لیگ ن کے سیاسی کئیریئر کے آخر میں کیں ۔اویس لغاری صاحب نے اپنے مسلم لیگ ن کے سیاسی کئیرئیر کے آغاز میں وہی غلطیاں کرنا شروع کردیں۔حالانکہ ذوالفقار کھوسہ تقریبا 30 سال تک مسلم لیگ ن سے وابستہ رہے۔جنوبی پنجاب سے بالائی پنجاب تک پارٹی کی بہترین تنظیم سازی کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے۔مگر آخری دو ،تین سال میں اپنے رویے اور بیٹوں کی غلطیوں کی قیمت انہوں نے چکائی۔مگر لغاری خاندان نے تو پورے جنوبی پنجاب کیا بلکہ ڈیرہ غازی خان ضلع کی حد تک بھی پارٹی کی مضبوطی پر توجہ نہ دی۔مسلم لیگ ن نے اویس لغاری صاحب کو پارٹی کا صوبائی جنرل سیکریٹری بنایا مگر ان کی سوچ اپنے ایک،دو حلقوں تک ہی محدود رہی۔جام پور کے حالیہ ضمنی انتخاب کی شکست بھی ناقص پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔پارٹی کے پنجاب کے جنرل سیکریٹری ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنے بیٹے کو ٹکٹ دلوایا۔حالانکہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر شیر علی گورچانی اور مخالفت امیدوار جعفر لغاری کا مقابلہ ہوتا تھا۔

پارٹی میں تاثر دیا کہ یہ ان کی آبائی سیٹ ہے۔ حالانکہ جام پورNA-193میں لغاری قبیلے کا ایک بھی ووٹر آباد نہیں ۔یہاں سب سے زیاد ہ ووٹ گورچانی قبیلے کا ہے اور باقی احمدانی،کورائی اور مرزا آباد ہیں۔جعفر لغاری مرحوم نے اپنے رویے اور محنت سے 35سال میں اپنے لئے یہ حلقہ تیار کیا تھا۔ انہیں لغاری ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ عوامی ہونے کی وجہ سے جام پور ووٹ دیتا تھا۔پھر وہی طرز عمل شیر علی گورچانی نے اپنایا۔ بدترین پریشر کے باوجود شیر علی گورچانی نے تحریک انصاف جوائن نہ کی ،آزاد الیکشن لڑا،کیونکہ ان کے خاندان کو شدید ترین پریشر کا سامنا تھا۔پھر بھی انہوں نے 55ہزار ووٹ لئے تھے اور آج اویس لغاری صاحب کے بیٹے نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اور حکومت کی مکمل سپورٹ کے باوجود اتنے ہی ووٹ لئےہیں۔مسلم لیگ ن بہتر حکمت عملی سے یہ سیٹ جیت سکتی تھی۔اگر گورچانی خاندان سے ان کی آبائی سیٹ کی قربانی نہ مانگی جاتی تو پیپلزپارٹی کے امیدوار اختر گورچانی اپنے قبیلے کے خلاف جاکر الیکشن نہ لڑتے ،یوں اختر گورچانی کا بھی تقریبا 20ہزار ووٹ شیر علی گورچانی کو پڑتا۔شیر علی گورچانی یہاں سے دو مرتبہ مسلسل ایم پی اے رہے ہیں اور ڈپٹی اسپیکر ہوتے ہوئے انہوں نے جام پور،داجل کے عوام کی بہت خدمت کی ہے۔غلط امیدوار کو ٹکٹ دینا اور حکومتی طاقت کا منفی استعمال مسلم لیگ ن کی جام پور سے شکست کی وجہ بنا ہے۔یہاں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نہیں بلکہ اویس لغاری اور جعفر لغاری کی بیوہ کا مقابلہ تھا۔عوام نے اویس لغاری کو مسترد کیا اور مینا جعفر لغاری کے کہنے پر ایک ایسے امیدوار کو ووٹ دیا جو شاید اپنی ذاتی حیثیت میں یونین کونسل کاچیئرمین بھی نہ بن سکے۔بہرحال اگر مسلم لیگ ن کو جنوبی پنجاب میں دوبارہ مضبوط کرنا ہے تو لغاری خاندان کو اپنے رویے میں تبدیلی لاکر عاجزی اور انکساری کو اپنانا ہوگا۔وگرنہ تکبر تو صرف اور صرف اللّٰہ کی چادر ہے اور ذوالفقار کھوسہ صاحب اور انکے خاندان کا پارٹی میں انجام سب کو یاد ہے۔