اسٹیبلشمنٹ اور عوام

March 22, 2023

یوں تو قیام پاکستان سے ہی مارشل لائوں کے نفاذ کی وجہ سےاسٹیبلشمنٹ اور سول سوسائٹی کے مابین فاصلے پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے لیکن ماضی قریب کے کچھ واقعات نے اس خلیج کو مزید وسیع کردیا۔ بھٹو کی پھانسی ایک ایسا عمل تھا جس کی وجہ سے پورے ملک اور بالخصوص سندھ میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دلوں میں نفرت جنم لینے لگی ۔

جنرل ضیا الحق نے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سے جان چھڑانے کے لئے ابتدا میں ایم کیو ایم کی سرپرستی کی اور مہاجروں کے احساس محرومیت کو ہوا دی لیکن حل میں مدد دینے کے بجائے ایم کیو ایم کو صرف سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا اور پھر جب الطاف حسین تشدد کی راہ پر چل نکلے تو ان کے خلاف ملٹری آپریشن کئے گئے جس کی وجہ سے مہاجر کمیونٹی بھی اسٹیبلشمنٹ سے متنفر ہوگئی۔

اسٹیبلشمنٹ اور عوام میں فاصلے بڑھانے کا فیصلہ کن مرحلہ نائن الیون کا تھا۔ پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ نے 13 سال پالا پوسا لیکن مذہبی اور جہادی تنظیموں کی سرپرستی اسٹیبلشمنٹ نے تیس سال تک کی تھی۔ ان لوگوں کو تیس سال جہاد وقتال کی راہ پر لگائے رکھا۔

پی ٹی آئی والوں نے تو جانوں کی قربانی نہیں دی لیکن مذہبی اور جہادی تنظیموں نے ہزاروں جانوں کی قربانیاں دیں تاہم نائن الیون کے بعد جنرل مشرف کی قیادت میں اسٹیبلشمنٹ نے اچانک یوٹرن لیا اور معزز خیال کیے جانے والے لوگوں کو قابل گردن زدنی ڈکلیئر کیا گیا۔

چنانچہ جہادی تنظیموں کے ایک حصے نے تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہتھیار اٹھالئے اور دوسرے نے ریاست کی خاطر بادل ناخواستہ یہ راستہ ترک کیا لیکن عشروں سے اسٹیبلشمنٹ کااتحادی سمجھےجانے والا مذہبی طبقہ اور بالخصوص جہادی ذہن والے لوگ اسٹیبلشمنٹ سے دور ہوگئے۔

بلوچ یوں تو روز اول سے اسٹیبلشمنٹ سے خفا تھے لیکن جنرل پرویز مشرف کے دور میں اکبر بگٹی کے قتل کے بعد وہاں پر ایک نئی باغیانہ سوچ جنم لینے لگی جو اب تک برقرار ہے ۔ پختون قوم پرست جماعتیں افغان جنگ کی وجہ سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ذہن سازی کررہی تھیں لیکن وار آن ٹیرر کے نام پر آپریشنوں اور بالخصوص افغانستان کے حوالے سے ڈبل گیم کی وجہ سے جس طرح ان کا خطہ میدان جنگ بنا رہا اس کی وجہ سے اکثر پختون اسٹیبلشمنٹ سے خفا تھے ۔

زمین پر رہنے والے پختون سمجھ رہے تھے کہ بم دھماکوں میں ان کے جسموں کے جو پرخچے اڑ رہے ہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ کی ڈبل گیم کا نتیجہ ہیں ۔ان پختونوں کے دلوں میں غبار جمع ہوگیا تھا جسے منظور پشتین نے رسک لے کر زبان دی اور جس طرح ایک اسکول ٹیچر کے بیٹے اور اس سادہ قسم کے نوجوان کو دنوں میں پذیرائی ملی ، اس سے ان جذبات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

ایک پنجاب باقی تھا اور اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ تر پنجاب کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا لیکن پنجاب کے لیڈر نواز شریف کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کرکے اسے بھی اپنے سے دور کردیا گیا۔

جناب حامد میر صاحب اور ارشاد بھٹی صاحب گواہ ہیں کہ 2018کے الیکشن سے دس پندرہ دن قبل ایک نشست میں ،میں نے جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ سے کہا تھا کہ سر ! آپ لوگ جس برہنہ طریقے سے پنجاب کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ(ن) کو ٹھکانے اور عمران خان کو جبراََ مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کے نتیجے میں آپ کے خلاف پنجاب میں بھی پی ٹی ایم بن جائے گی ۔

انہوں نے تب میری بات سے اتفاق نہیں کیا لیکن گوجرانوالہ جلسہ میں جب میاں نواز شریف نے ان کا اور جنرل فیض حمید کا نام لیا تو میں نے انہیں پیغام بھیجا کہ پنجاب میں پی ٹی ایم بن گئی ہے یا نہیں ۔ دراصل عوام کو اسٹیبلشمنٹ سے متنفر کرنے میں بنیادی کردار 2018کے انتخابات سے قبل پولیٹکل مینجمنٹ اور دوران الیکشن کھلی دھاندلی نے ادا کیا تھا۔ماضی میں اگر اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کو ٹھکانے لگانے کا ارادہ کرتی تو جواب میں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی تو کیا اے این پی اور بلوچ قوم پرستوں تک کو رعایت دے کر ساتھ ملالیتی لیکن عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے سب کو قربان کر دیا۔

پولیٹکل مینجمنٹ اور دھاندلی کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی، اے این پی ، ایم کیوایم، بی این پی ، جے یوآئی ، جماعت اسلامی حتیٰ کہ پاک سرزمین پارٹی اور جی ڈی اے کو بھی قربان کیا گیا ،جس کی وجہ سے ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے حق میں قاسم سوری، شیخ رشید اور شبلی فراز جیسے نام نہادلیڈروں کے سوا کوئی جینوئن قیادت نہیں رہی۔ صرف یہی نہیں بلکہ عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کے لئے عدلیہ ، میڈیا ، بیوروکریسی اور پولیس کے دائرہ اختیار میں بڑی بے شرمی کے ساتھ مداخلت کی گئی۔

اسٹیبلشمنٹ کے بعض لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ گزشتہ پانچ برسوں کے ہائبرڈ نظام کی وجہ سے مذکورہ تمام ادارے تاریخ کی بدترین گھٹن برداشت کررہے تھے ۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اپنے طریقے سے، پیپلز پارٹی اپنے طریقے سے ، قوم پرست جماعتیں اپنے طریقے سےجب کہ منظور پشتین کی قیادت میں پی ٹی ایم اپنے طریقے سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ذہن سازی کرتی رہیں۔

شاید اس کااحساس کرکے اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی غیرآئینی اور قانونی سپورٹ کا خاتمہ کیا اور شاید اس کا خیال تھا کہ عمران خان ماضی کے احسانات کی وجہ سے اس کے خلاف نہیں جائیں گے اور بعض بے وقوف یہ سوچ رہے ہیں کہ آپ عمران خان کو دوبارہ وزیراعظم بنا بھی دیں تو بلوچستان، پختون پٹی، کراچی کے مہاجر اور سندھی مطمئن نہیں ہوسکتے ۔پھر یہی کام پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اور پیپلز پارٹی وغیرہ مزید شدت سے شروع کردیں گی کیونکہ اب عمران خان نے سب کو راستہ دکھا دیا ہے۔ لہٰذا اسٹیبلشمنٹ سے ناراضی کو ختم کرنے کیلئے تمام قومیتوں اور تمام اداروں سے متعلق بہت کچھ کرنا ہوگا۔ جن جن کے حق میں جن جن کے خلاف ترازو کے پلڑے کو جھکایا گیا تھا، پہلے اسے برابر کرنا ہوگا۔

جن جن لوگوں کو استعمال کرکے پھینک دیا گیا، انہیں منانا ہوگا۔ جو جو قومیتیں احساس محرومی کا شکار ہیں، ان کےاحساس محرومی کو ختم کرنا ہوگا اور جس جس سویلین ادارے کے کام میں مداخلت ہورہی ہے، اس مداخلت کو ختم کرکے سویلین اداروں کو بااختیار بنانا ہوگا۔عمران خان کے معاملے میں غلطی 2022 میں نہیں ہوئی بلکہ 2010سے 2018تک ہوتی رہی جس کا خمیازہ آج قوم اور اسٹیبلشمنٹ بھگت رہی ہے۔