استقبالِ رمضان اور اُس کے تقاضے

March 22, 2023

مفتی غلام مصطفیٰ رفیق

ماہِ رمضان ہزاروں رحمتوں اوربرکتوں کو اپنے دامن میں لئے ہم پرسایہ فگن ہونے والا ہے، یہ بابرکت مہینہ ایمان وتقویٰ کاآئینہ دار ہے، جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پرخاص رحمت وبخشش نازل فرماتا ہے۔ حدیث شریف میں آتاہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا بخشش اور تیسرا دوزخ سے آزادی کا ہے۔اس ماہ مبارک میں نورانیت میں اضافہ، روحانیت میں ترقی، اجروثواب میں اضافہ اوردعائیں قبول کی جاتی ہیں۔

اس مبارک مہینے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے،گویا اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ انسان کو اپنا بندہ بناناچاہتا ہے،اورانسان کواس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک سے ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑلے۔ اس ماہ مبارک میں دربارِ الٰہی سے کسی سائل کوخالی ہاتھ، کسی امیدوار کو ناامید اور کسی طالب کو ناکام ونامراد نہیں رکھا جاتا، بلکہ ہرشخص کے لئے رحمت وبخشش کی عام صدالگتی ہے۔

اس ماہ مبارک کا ایک ایک لمحہ ہزاروں برس کی زندگی اورطاعت وعبادت سے بھاری وقیمتی ہے۔ اس میں اجروثواب کے پیمانے ستر گنا بڑھا دیئے جاتے ہیں۔اس میں خیر کے طلب گاروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی اورشرکے طلب گاروں کا راستہ روک دیا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے منادی ہوتی ہے کہ ’’اے خیر اور بھلائی تلاش کرنے والو! آگے بڑھو، اور اے شر اور برائی کے طلبگارو! بازآجاؤ‘‘۔

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’جب رمضان آتا ہے توآسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، اور شیاطین پابند سلاسل کردیئے جاتے ہیں۔

ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم پررمضان کامبارک مہینہ آیا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پراس ماہ کاروزہ فرض کیا ہے، اس میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور سرکش شیطان قید کردیئے جاتے ہیں، اس میں اللہ کی جانب سے ایک ایسی رات رکھی گئی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس کی خیرسے محروم رہا، وہ محروم ہی رہا‘‘۔

حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ سرکاردوعالم ﷺ نے فرمایا’’رمضان کی خاطر جنت کو آراستہ کیاجاتا ہے، سال کے ابتدائی سرے سے اگلے سال تک،پس جب رمضان کی پہلی تاریخ ہوتی ہے توعرش کے نیچے سے ایک ہواچلتی ہے جو جنت کے پتوں سے نکل کرجنت کی حوروں پرسے گزرتی ہے تو وہ کہتی ہیں: اے ہمارے رب! اپنے بندوں میں سے ہمارے ایسے شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اورہم سے ان کی آنکھیں‘‘۔

حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ رمضان میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اورشیاطین کوطوق پہنادیئے جاتے ہیں، ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جورمضان کا مہینہ پائے اورپھراس کی بخشش نہ ہو‘‘۔

رمضان سے متعلق نبی کریم ﷺکے ان ارشادات سے اس ماہ مبارک کی عظمت اور تقدس کاپتا چلتا ہے، لہٰذا ہمیں اس ماہ کی بھرپور قدر کرنی چاہئے، استقبالِ رمضان کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اس ماہِ مبارک میں تمام تر مصروفیات کو مختصر کرکے رحمت ومغفرت الٰہی کی بہار کو سمیٹاجائے اور جتنا ہوسکے ،اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کیاجائے۔ ایک روایت میں آتاہے کہ رمضان پورے سال کادل ہے، اگر یہ درست رہا تو پورا سال درست رہا۔

امام ربانی مجددالف ثانیؒ نے اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں اتنی برکتوں کانزول ہوتاہے کہ بقیہ پورے سال کی برکتوں کو رمضان المبارک کی برکتوں کے ساتھ وہ نسبت بھی نہیں جو قطرے کو سمندر کے ساتھ ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسا انقلابی مہینہ ہے کہ اگر اس کے آداب کوصحیح طور پر بجا لایا جائے اور پوری امت اس کی برکتوں اور سعادتوں کو مکمل طور سے حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوجائے تواس امت کی کایاپلٹ سکتی ہے اورآسمان سے خیروبرکت کے دائمی فیصلے نازل ہوسکتے ہیں۔ ایک مومن کوجہاں اس مہینے میں روزہ، تراویح، زکوٰۃ وصدقات کا اہتمام کرناضروری ہے ،وہیں ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل لائحہ عمل کوبھی اپناناچاہئے، جو سرکاردوعالم ﷺنے ہمیں بتایا ہے۔

حضرت سلمان فارسیؓ آنحضرت ﷺ کایہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ: رمضان مبارک میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو، دوباتیں توایسی ہیں کہ تم ان کے ذریعے اپنے رب کوراضی کروگے، اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ تم ان سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ پہلی دو چیزیں جن کے ذریعے تم اللہ تعالیٰ کوراضی کروگے،یہ ہیں’’لاالہٰ الااللہ‘‘کی گواہی دینا اور استغفارکرنا، اور وہ دوچیزیں جن سے تم بے نیاز نہیں ،یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے جنت کاسوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو۔

آئیے روزے کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے اعمال و اطوار کو دیکھیں کہ اپنا ہی دامن ’’داغ دار‘‘ ہے۔ دامن کے داغوں (گناہوں کو) مٹانے کے لیے اس مہینے کو رضائے الٰہی کے مطابق گزار کر ’’متقی‘‘ کی سند حاصل کرلیں۔ قیامت میں اس ماہ مبارک میں اتارا ہوا قرآن حکیم اور اس میں فرض کیے ہوئے روزے ہی کام آئیں گے۔ رسول رحمتﷺ نے فرمایا: قرآن اور روزہ حشر کے میدان میں (روزے دار) کی شفاعت (سفارش) کریں گے۔

یہ ماہِ مبارک محبوب ﷺ کی امت کے لیے اللہ کی وہ عطا ہے کہ جسے حاصل کرنے کے لیے اس میں خود کو تیار کرلینا چاہیے اور اس پورے ماہ تمام خواہشات نفسانی سے ہٹ کر دل میں ایک تمنا، ایک عہد کریں کہ ہم اس پورے ماہ صرف اور صرف قدم قدم، لمحہ لمحہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کی پابندی کریں گے۔ انشاء اللہ فیوض و برکات رمضان سے ہمارے ’’اعمال بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوکر ہمیں‘‘ عباد الرحمٰن کے درجے پر پہنچا دیں گے۔

روزہ اور رمضان …!

جنت اور مغفرت کا پروانہ

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’میری امت کو رمضان کے متعلق پانچ چیزیں خصوصیت کے ساتھ ودیعت فرمائی گئی ہیں، جو پچھلی امتوں کو نہیں دی گئیں۔

٭… روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے۔

٭… اس کے لیے سمندر کی مچھلیاں افطار کے وقت تک استغفار کرتی رہتی ہیں۔

٭… اللہ تعالیٰ ہر روز جنت کو آراستہ کرتا اور یہ فرماتا ہے، عنقریب میرے نیک بندے (دنیا کی)مشقت اپنے اوپر سے پھینک کر تیری جانب آئیں گے۔

٭… سرکش شیاطین رمضان میں قید کر دیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ رمضان المبارک کے زمانے میں ان بُرائیوں تک نہیں پہنچتے، جن برائیوں کی طرف غیر رمضان میں پہنچ جاتے ہیں۔

٭…رمضان کی آخری رات میں ان (روزے داروں)کے لیے مغفرت کا فیصلہ کیا جاتا ہے، آپﷺ سے عرض کیا گیا،کیا یہ مغفرت شب قدر میں ہوتی ہے؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں۔ بلکہ دستور یہ ہے کہ کام ختم ہونے پر مزدور کو اُجرت سے نوازا جاتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل،الترغیب والترہیب 55/2)

ہر نیکی پر سات سو گنا اجر

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’(رمضان میں) مومن کے ہر نیک عمل کے عوض دس سے سات سو گنا تک اجر و ثواب عطا کیا جاتا ہے۔ سوائے روزے کے کہ رب تعالیٰ فرماتاہے، میرے بندے نے روزہ میرے لیے رکھا ہے،لہٰذا اس کا غیرمحدود اجر و ثواب میں خود عطا کروں گا، کیوں کہ اس نے کھانے پینے اور خواہشاتِ نفسانی سب کو میرے لیے چھوڑا ہے۔‘‘ (بخاری،مسلم)

روزہ …ایک بے مثال عمل

حضرت ابوامامہ باہلیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آں حضرتﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ، کوئی ایسا عمل بتادیں جو مجھے جنت تک پہنچا دے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم روزے رکھا کرو، اس لیے کہ وہ بے مثال عمل ہے۔ (الترغیب والترہیب)

استقبالِ رمضان

رمضان آ گیا ہے

رمضان آ گیا ہے

برسے گی گھر پہ رحمت

سب کو ملے گی راحت

تقسیم کرنے برکت

ذیشان آ گیا ہے

رمضان آ گیا ہے

رمضان آ گیا ہے

جیسے چمن کا مالی

خوشیوں کی لے کے تھالی

گھر میں ہمارے رب کا

مہمان آ گیا ہے

رمضان آ گیا ہے

رمضان آ گیا ہے

افطاریوں کی رونق

مسجد میں پھر بڑھے گی

رکھنے ہمارا پھر سے

وہ مان، آ گیا ہے

رمضان آ گیا ہے

رمضان آ گیا ہے

چشمہ سا بہہ رہا ہے

ہر شخص کہہ رہا ہے

مسلم کی پھر بڑھانے

وہ شان آ گیا ہے

رمضان آ گیا ہے

رمضان آ گیا ہے

پھر سے تراویحوں کا

جوش و خروش ہو گا

کرنے ہمارا تازہ

ایمان آ گیا ہے

رمضان آ گیا ہے

رمضان آ گیا ہے

سجدوں میں پھر سے لذت

ہر شخص کو ملے گی

بن کے ندیمؔ میری

وہ جان آ گیا ہے

رمضان آ گیا ہے

رمضان آ گیا ہے

(ریاض ندیمؔ نیازی،سبّی)