ترک اپوزیشن صدارتی انتخابات جیت سکتی ہے!

March 23, 2023

ترکیہ میں 2023ء میں ایک ساتھ ہونے جا رہے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات تاریخ کے اہم ترین انتخابات تصور کئے جا رہے ہیں اور دنیا بھر کی نظریں ابھی سے ان انتخابات کی جانب مرکوز ہیں۔ صدر ایردوان کے لئے یہ انتخابات ماضی کے تمام انتخابات سے یکسر مختلف ہیں اور پہلی بار ان کو اپنے بیس سالہ دور اقتدار میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ترکیہ میں آنے والے زلزلوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہےجب کہ اپوزیشن اپنے آپ کو اس وقت مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کے سہانے خواب کو حقیقت کےروپ میںدیکھ رہی ہے۔

اس بار بھی ترکیہ میں انتخابی صورتِ حال 2002ء کی صورتِ حال سے کافی حد تک مشابہت رکھتی ہے۔ (اگرچہ ابھی انتخابات میں دو ماہ باقی ہیں ) اور اس بار بیس سال بعد پہلی بار اپوزیشن کا پلڑا بھاری ہے۔اگرچہ آق پارٹی بیس سال سے برسر اقتدار ہے اور اسے عوامی حمایت بھی حاصل ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب اس کی حمایت میں کمی آتی جا رہی ہےلیکن اس کے باوجود رائے شماری کے نمایاں ادارے صدر ایردوان کے صدارتی انتخابات بڑی آسانی سے جیتنے سے متعلق سروے پیش گوئی کررہےہیں(اس قسم کے سرویز ذاتی رائے کے مطابق آق پارٹی کو نقصان پہنچاسکتے ہیں ) ۔ شاید اس کی وجہ ان کمپنیوں پر بر سراقتدار آق پارٹی کا دبائو ہوسکتا ہے جب کہ عوامی جوش و خروش اور دیگر سرویز کمپنیوں کے سروے سے یہ حقیقت آشکار ہورہی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں پر مبنی ’’ ملت اتحاد ‘‘ پہلے سے بہت مضبوط ہوچکا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حمایت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صدر ایردوان اس وقت تک ترکیہ کی تاریخ کے طویل عرصہ تک اپنی حمایت کو جاری رکھنے والے یگانہ رہنما ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ ترکیہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور اسے دنیا کے عظیم ممالک کی صف میں شامل کرنے والے واحدترک رہنما ہیں۔اس کے باوجود صدر ایردوان کی مقبولیت میں کمی آنے کی سادہ سی وجہ ان کا طویل عرصے بر سر اقتدار رہنا اور عوام کا ان سے اُ کتا جانا بھی ہوسکتا ہے تاہم ان کی مقبولیت میں کمی آنے کی سب سے بڑی وجہ ملک میں ناقابلِ برداشت مہنگائی، افراطِ زر اور عوام کی بڑی تعداد کا غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہونا ہے۔ ترکیہ گزشتہ تین برسوں سے شدید افرطِ زر کے طوفان کی لپیٹ میں ہے۔ اگرچہ حکومت نے تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کی مالی حالت بہتر بنانے کی کوشش تو ضرور کی ہے لیکن تنخواہوں میں اضافے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے مہنگائی آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی اور تنخواہوں میں ہونے والا اضافہ افراطِ زر کی شرح کو بلند کرنے کا باعث بنا۔ حکومت نے انتخابات سے قبل افراطِ زر پر قابو پانے کیلئے بڑی سنجیدگی سے قد م اٹھانا شروع کردیے ہیں جس سے افراطِ زر کی شرح 55فیصدتک گرانے میں کچھ حد تک کامیابی بھی حاصل کی ہے لیکن اپوزیشن نے اسے مسترد کرتے ہوئے ان اعدادو شمار کو غلط قرار دیا ہے۔ اپوزیشن، اس مہنگائی اور افراطِ زر کا سہارا لیتے ہوئے صدر ایردوان کے خلاف انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہے اور عوام کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں افرطِ زر کو سنگل ڈی جٹ میں لانے کی یقین دہانی کروا رہی ہے جس کے نتیجے میں اپوزیشن کے اتحاد کی حمایت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ترکیہ کی تاریخ میں صدر ایردوان پہلے رہنما ہیں جو مسلسل بیس سال سے تمام انتخابات جیتنے کا ریکارڈ قائم کرچکے ہیں اوراب ان مشکل حالات سے نکلنے اور صدارتی انتخابات میں یقینی کامیابی حاصل کرنے کے لئے اپنے نئے پلان پر عمل درآمد کا آغاز کرچکے ہیں۔ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق صدر ایردوان نے اپوزیشن کے اتحاد کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں ہی میں سے’’ مملکت پارٹی ‘‘ ( جس کے رہنما اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعتCHP سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ’’ مملکت پارٹی ‘‘ تشکیل دے چکے ہیں ) کے چیئرمین محرم انجے کے لئے صدارتی امیدوار بننے کی راہ ہموار کرچکے ہیں (اپوزیشن نے اسے ایردوان کی ناکام چال قرار دیا ہے ) تاکہ صدارتی انتخابات کے پہلے ہی رائونڈ میں اپوزیشن کے درمیان پھوٹ ڈلوا کر اور ان کے ووٹ تقسیم کروا تے ہوئے شکست سے دوچار کیا جاسکے اور دوسرے مرحلے کے انتخابات سے بچا جاسکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایردوان انتخابات جیتنے اور شکست کو گلے لگانے کی بجائے آخری وقت تک جنگ جاری رکھتے ہوئے شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کے فن کے ماہرکے طورپر جانے جاتے ہیں۔

صدارتی انتخابات کے علاوہ پارلیمانی انتخابات بھی ترکیہ کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں، اگر صدر ایردوان صدارتی انتخابات جیت بھی لیتے ہیں تو اس بار ان کے’’جمہور اتحاد‘‘ کو پارلیمنٹ میں پہلے جیسی برتری حاصل نہیں ہوسکے گی کیونکہ پارلیمانی انتخابات کے لئےاپوزیشن نے پاکستان کی جماعتوں کے اتحاد کا طریقۂ کاراپناتے ہوئے ، صدر ایردوان کے ’’ جمہور اتحاد‘‘ کے مقابلے میں الگ الگ امیدواروں کی بجائے ملت اتحادکے مشترکہ امیدوار کھڑے کرتے ہوئے کامیابی کی راہ ہموار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس طریقۂ کار سے اپوزیشن کے ’’ ملت اتحاد ‘‘ کو ’’ جمہور اتحاد‘‘ سے زیادہ نشستیں حاصل ہونے کے قوی امکانات ہیں۔