پنجاب الیکشن کا التوا

March 24, 2023

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی طرف سے پنجاب الیکشن کے التوا اور 8؍اکتوبر کی نئی تاریخ کے اعلان کی صورت میں جہاں قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ساتھ کرانے کا اشارہ ملتا ہے، وہاں ایک آئینی بحران بھی سامنے کھڑا نظر آرہا ہے اور قوی امکان ہے کہ یہ معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ میں جائیگا۔ اس دوران حکومت اور اپوزیشن کے حلقوں کی طرف سے ایک دوسرے پر دبائو بڑھانے کے انداز فکر میں عملی تبدیلی نہ آئی تو حالات مشکل کیفیت کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔ ملک کو درپیش مسائل اور چیلنج متقاضی ہیں کہ فریقین اپنے لب و لہجے میں نرمی لائیں اور احتیاط کے تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے ڈائیلاگ کی طرف بڑھیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے 30؍اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ بدھ 22؍مارچ کی رات کو سامنے آیا۔ کمیشن نے اپنے جاری حکم نامے میں کہا کہ اس وقت حالات سازگار نہیں، فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکورٹی اہلکار دستیاب ہے ۔ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور اسٹیٹک فورس کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق آئی جی پنجاب نے امن و امان کی خراب صورتحال سے آگاہ کیا۔ دہشت گردی کے واقعات کا حوالہ دیا اور کہا کہ دہشت گردوں کیخلاف آپریشن مکمل ہونے میں پانچ ماہ لگیں گے۔ پنجاب میں 3لاکھ 86ہزار 629اہلکاروں کی کمی ہےجو فوج اور رینجرز کی تعیناتی سے ہی پوری ہو سکتی ہے۔ وزارت داخلہ کے اس عذر کا حوالہ بھی دیا گیاکہ سول آرمڈ فورسز اسٹیٹک ڈیوٹی کے لئے دستیاب نہیں ہوں گی۔ کمیشن کے مطابق آئین کے تحت حاصل اختیارات کی رو سے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا ہے اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد یہ تنازع چل رہا تھا کہ صوبائی الیکشن انعقاد کی تاریخ کون دے۔ دونوں صوبائی گورنر متذبذب نظر آئے۔ قصہ مختصر یہ کہ سپریم کورٹ کے حکم پر صدر مملکت نے کردار ادا کیا اور پنجاب میں 30اپریل کیلئے شیڈول جاری کردیا گیا۔ خیبر پختونخوا کے گورنر نے صحافیوں کے سامنے جو زبانی تاریخ دی وہ تحریری شکل اختیار نہ کر سکی۔ اس اعتبار سے اب پنجاب اور خیبر پختونخوا دونوں کے نئے شیڈول دینے کا مسئلہ ہے اور اس معاملے میں پیش رفت کے لئے بھی شاید سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ضروری ہو۔ دوسری طرف حکومتی حلقوں کی طرف سے کئی دلیلوں کے ساتھ اس رائے کا اظہار سامنے آتا رہا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ منعقد ہونے چاہئیں۔ بدھ کے روز وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو پالیسی بیان دیا اس سے ملک بھر میں ایک ہی دن الیکشن کا عندیہ سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم الیکشن سے فرار نہیں، صاف و شفاف الیکشن چاہتے ہیں۔ ایک ہی دن الیکشن نہ ہونے کی صورت میں افراتفری کے خدشات ہیں۔ اس منظرنامے میں سول سوسائٹی کے وفد سے ملاقات میں عمران خان کی ڈائیلاگ پرآمادگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت تحریک انصاف سے بات چیت کی داغ بیل ڈالے اور اسے مذاکرات پر آمادہ کرے۔ وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں کئی بار مذاکرات کے مسلسل جاری رکھنے کے عمل کی بدولت مشکل ترین ڈیڈلاک ختم ہوگئے۔ اب بھی اس باب میں سنجیدہ پیش رفت کی جانی چاہئے۔ تاہم آئینی ضرورتوں سے کسی طور بھی اغماض برتا جانا ملکی مفاد میں نہیں۔ اس سے اجتناب برتا جانا چاہئے، سپریم کورٹ کے فیصلوں سے اختلاف ہو تو اس کے اظہار کا فورم بھی موجودہ حالات میں سپریم کورٹ ہی ہے۔ فریقین کو مذاکرات پر لانے کے ضمن میں سول سوسائٹی کی کوششوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مل بیٹھ کر اتفاق رائے کی راہ ہموار کی جانی چاہئے۔