کتاب کے مستقبل کو کوئی خطرہ نہیں

March 29, 2023

چند روز قبل کا واقعہ ہے، میں نے اپنے 18برس کے بیٹے آدم کو مطالعہ کی اہمیت سمجھاتے ہوئے ٹیلی ویژن دیکھنے سےپرہیز کی تلقین کرتےہوئے کہا۔ ’’کتابیں پڑھنے کیلئے تمہیں وقت کب ملتا ہے‘‘؟ بیٹے نے کہا ’’کتابیں پڑھنے سے کیا فائدہ؟‘‘

’’اس سے آپ کا ذہن وسیع ہوتا ہے‘‘ میں نے جواب دیا۔آدم بولا’’ وہی ساری چیزیں ٹی وی پر بھی ہیں، چنانچہ ذہن ٹی وی دیکھنے سے بھی وسیع ہوتا ہے‘‘۔ میں نے کہا،کتابوں میں تمہیں بے شمار سائنسی معلومات ملیں گی‘‘۔ بیٹا کہتا ہے۔ ’’سائنس ٹی وی پر بھی ہے‘‘۔میں پھر کہتا ہوں ’’کتابوں میں ادب ہے، صحافت ہے، سیاست ہے، تہذیبی سرمایہ ہے‘‘

آدم جواب دیتا ہے۔ ’’ ایسی بہت سی چیزیں اور پروگرام جن کا تعلق ادب ، صحافت، سیاست، تفریح اور تہذیب و تمدن سے ہے ٹیلی ویژن پر بھی موجود ہیں ‘‘۔بیٹے کو سمجھاتے سمجھاتے جب میں تنگ آ جاتا ہوں تو کہتا ہوں ، ’’اس کے باوجود تمہیں کتابیں پڑھنی ہونگیں‘‘۔’’وہ کیوں‘‘…

’’اس لئے کہ ہم کتابیں لکھتے ہیں‘‘۔باپ کی زبانی یہ دلیل سنتے ہی بیٹا کہتا ہے۔ ’’جب ہم کتابیں پڑھتے نہیں تو آپ کتابیں لکھتے ہی کیوں ہیں‘‘؟

مطالعہ کا ذوق ختم ہونے پر اس سے بڑا تبصرہ اور کیا ہوسکتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ میرا بیٹا کوئی بڑا لیڈر،دولت مند، سیاستدان،صنعت کار، ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، پروفیسر یا فنکار بن جائے بلکہ میں اسے بے لاگ حق پرست، بے خوف، با اعتماد ، روشن خیال روشن ضمیر انسان اور ایک متوازن شخصیت کا مالک بنانا چاہتا ہوں کہ وہ بڑا ہوکر اس وسیع حقائق کی دنیا میں زندگی سے نبرد آزما ہو اور اپنا مقام آپ پیدا کرے۔ اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ان مقاصد کو پانے کیلئے مطالعہ ضروری بلکہ بے حد ضروری ہے۔ اب رہ گئی بات اختلاف کی تو مجھے اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ اگر کسی شخص کو کسی سے فکری اور نظری اختلاف ہو تو سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ اختلاف فطری اور طبعی ہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے فکر و نظر کا مکمل طور پر پابند ہو۔ اختلاف زندہ ضمیری کی بھی علامت ہے۔ پرنٹ میڈیا و الیکٹرونک میڈیا کے بارے میں پائے جانے والے نئی اور پرانی نسل کے اختلافات کو میں ذاتی اختلاف میں تبدیل نہیں کررہا لیکن الیکٹرونک میڈیا کا دھماکہ خیز انقلاب اگر سب سے زیادہ کسی چیز پر اثر انداز ہوا ہے تو وہ ہے پرنٹ میڈیا جس سے کتابی دنیا میں سانس لینے والےافراد بہت بے چین ہوئے۔ مگر علوم و فنون کی امکانی توسیع نے بے چین روحوںکو کافی حد تک سنبھال لیا۔ گلو بلائزیشن تحریک کی حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن کتاب آج بھی آمادہ ارتقا ہے۔ کتاب کی اہمیت کل بھی تھی آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی۔ الیکٹرونک میڈیا تو آج کی پیداوار ہے لیکن عقل کی مدد سے انسان نے اس دور میں بھی بہت سی معلومات حاصل کرلی تھیں جب وہ پتھر کے زمانے میں رہا کرتا تھا، اس وقت اس کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہ تھا کہ وہ اپنی معلومات فکر اور علوم و فنون کو محفوظ رکھ سکے اور دوسرے تک منتقل کرسکے جس کا وہ بے حد خواہش مند تھا کہ انسان اپنی خوشیوں اور غموں میں دوسرے انسانوں کو شریک کرکے طمانیت محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ انسان نے لکھنے کی ابتدا کی۔ اس سے قبل ابلاغ کا عمل زبانی، آوازوں اور اشاروںسے ہوتا تھا۔

لکھنے کی ابتدا کہاں سے ہوئی یہ کہنا دشوار ہے لیکن مختلف علاقوں میں یہ عمل مختلف اوقات میں شروع ہوا۔ ابتد امیں انسان نے مختلف تصاویر یا علامتیں بناکر مفہوم واضح کرنے کی کوشش کی ،تاریخ بتاتی ہے کہ یہ کام سب سے پہلے مصریوں نے 5000 سال قبل مسیح شروع کیا، اس زمانے میں کاغذ تو ایجاد نہ ہوا تھا، لکڑی، پام کے پتے، جانوروں کی کھالیں اور مٹی کے برتن ہی لکھنے کیلئے استعمال کئےجاتے تھے۔ اس وقت بھی ہاتھی دانت ایک قیمتی شے سمجھی جاتی تھی اور اس کو مقدس عبارت لکھنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، ایک رائے یہ ہے کہ حروف تہجی کی ایجاد شام و فلسطین کے علاقے میں 3600برس قبل ہوئی۔ کاغذ کی ایجاد کا سہرا چین کے چینیوں کے سر ہے لیکن چینیوں نے اپنی اس ایجاد کو 700برس تک دنیا سے چھپائے رکھا، کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے سمرقند فتح کیا تو چند چینی بھی قیدی بنالئے گئے جنہوں نے یہ راز فاش کیا۔ 1010ء کے لگ بھگ ہسپانیہ میں دنیا کی پہلی بائبل چھاپے جانے کے آثار ملتے ہیں،1455ء میں جرمنی کے جوہانس ہیم برگ نے ٹائپ رائیٹر کی مدد سے بائبل چھاپنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس وقت دنیا میں جوہانس ہیم برگ کی بائبل کے صرف 31نسخے مختلف عجائب گھروں اور کتب خانوں میں محفوظ ہیں ایسا ہی ایک نسخہ 1987میں نیویارک میں نیلام ہوا تھا جس کی قیمت 5کروڑ 39لاکھ ڈالر ادا کی گئی تھی۔

بات کہاں سے کہاں جاپہنچی۔ آخری بات یہ کہ گزشتہ برسوں میںبچوں کے فکشن کا ایک مقبول سلسلہ منظر عام پر آیا جسے ہیری پوٹر سیریز کا نام دیا گیا ہے ،اس کروڑوں کی تعداد میں چھپنے والی سیریز نے یہ ثابت کردیا ہے کہ سردست کتاب کے مستقبل کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔