جواں سال… جواں عزم

March 31, 2023

میر جاوید رحمٰن مرحوم کی تیسری برسی

میں ان دنوں اپنی آپ بیتی ’شام بخیر‘ کی تکمیل میں مصروف ہوں۔ ان دنوں اتفاق سے ’جنگ‘ سے وابستگی کے دنوں کی یادیں ہی قلمبند ہورہی ہیں۔ بہت ہی خوشگوار لمحے۔ برنس روڈ سے آئی آئی چندریگر روڈ کا سفر۔ اُردو کے کثیر الاشاعت اخبار کا دفتر اب پاکستان کی وال اسٹریٹ یعنی میکلوڈروڈ پر آگیا ہے۔

’اخبار جہاں‘ کا آغاز ہے۔ ’جو کچھ جہاں میں ہے اخبارجہاں میں ہے۔‘ ہم سب بھی ولولۂ تازہ رکھتے ہیں۔ میر جاوید الرحمن بھی جواں سال او ر جواںعزم۔ برطانیہ کے صف اوّل کے اخبارات کے بارے میںمعلومات کا تبادلہ ہوتا۔ میر صحافت میر خلیل الرحمن نے انہیںبرطانیہ میں بعض تربیتی پروگراموں میں بھی بھیجا تھا۔ وہاں کی یادوں کو دہراتے۔ کئی سال بعد حیدر آباد دکن میں ہند سماچار گروپ کے چیف ایڈیٹر نے مجھے ’جنگ‘ سے نمائندگی کرتے دیکھا تو انہوں نے لندن میں میر جاوید رحمن سے اپنی ملاقاتوں کا خاص طور پر تذکرہ کیا۔ میں نے واپس آکر جاوید صاحب سے میٹنگ میں وجے کمار چوپڑا کے حوالے سے باتیں کیں۔ تو وہ بہت خوش ہوئے۔مسکرا مسکرا کر ان دنوں کا ذکر کرنے لگے۔

میر جاوید رحمن جنہیں مرحوم کہتے ہوئے دل کانپ جاتا ہے۔ اتنے متحرک فعال اور مستعد احباب سے دنیا خالی ہوتی جارہی ہے۔ جنگ گروپ سے وابستگی کا آغاز تو برنس روڈ پر واقع دفتر سے کیا تھا۔ لیکن کچھ ہفتے بعد ہی آئی آئی چندریگر روڈ پر نو تعمیر شدہ بلڈنگ میں منتقل ہوگئے۔ اخبار جہاں کے لیے اس بلڈنگ کی تیسری منزل مخصوص کی گئی۔ یہیں ہماری جواں سال بلند قامت متجسس آنکھوں والے جاوید صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ آغاز ہوتا ہے۔ ابھی پاکستان دو لخت نہیں ہوا ہے۔ یہ 1967 ہے۔ اخبار جہاں مشرقی پاکستان بھی جاتا ہے۔ موتی جھیل ڈھاکا کے پاس ’جنگ‘ کا دفتر ہے۔ میرے خیال میں اپنی بلڈنگ ہے۔ ’جنگ‘ بھی روزانہ پی آئی اے سے ایک بازو سے دوسرے بازو جارہا ہے۔ جنگ اور اخبار جہاں پڑھنے والے بڑی تعداد میں ہیں۔

’جنگ‘ اپنے حلقۂ اثر اور قارئین کی تعداد کی بدولت نمبر ون ہے۔ ’جنگ‘ کراچی کے علاوہ پنڈی سے شائع ہورہا ہے کیونکہ دارُالحکومت منتقل ہونے کے باعث جنگ کراچی کے دلدادگان بڑی تعداد میں اسلام آباد ہجرت کرگئے ہیں۔ ان کا ناشتہ جنگ کے بغیر ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس لیے جنگ پنڈی سے شروع کردیا گیا ہے۔

مجھے نہیں بھولتی ہیں۔ جاوید صاحب کی چمکتی کچھ ڈھونڈتی آنکھیں۔ اخبار جہاں اُردو صحافت میں ایک نیا تجربہ ہے۔ پہلے بہت سے ماہنامے ہفت روزے نکل رہے ہیں جو مذہبی ہیں۔ سیاسی ہیں۔ ادبی ہیں۔ فلمی ہیں۔ کھیل سے متعلق ہیں۔ لیکن اخبار جہاں ایک الگ نوعیت کا رسالہ ہے۔ جس میں نوجوان نسل کی دلچسپیاں۔ اور مشغلے سامنے رکھے گئے ہیں۔ اس لیے ایک جواں سال میر جاوید رحمن کو اس کا منیجنگ ایڈیٹر مقرر کیا گیا ہے۔ شعبۂ ادارت میں بھی سب نوجوان ہیں۔ نذیر احمد ناجی۔ انچارج ایڈیٹر ہیں۔ عبدالکریم عابد۔ مجیب الرحمن شامی۔ احفاظ الرحمن۔ نعیم آروی۔ انور شعور۔ خالد خلد۔ سعیدہ افضل۔ رعنا فاروقی۔ نوشابہ صدیقی۔ ریحانہ حاتمی۔ سب نئے خیالات نئے عزائم کے ساتھ۔ اس وقت انٹرنیٹ تھا نہ فیکس نہ موبائل فون۔ حوالے اور مشاورت کے لیے کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔ دنیا بھر کے اخبارات۔ رسائل دیکھے جاتے تھے۔ میر جاوید رحمن۔ یہ رسائل لے کر اخبار جہاں کے کھلے ہال میں آجاتے۔ جہاں ہم میز کرسیاں سجائے ایسے بیٹھے تھے جیسے آج کل نمائشوں میں اسٹال لگتے ہیں۔ ہم شعبۂ ادارت کے سب نوجوان آپس میں یہی بات کرتے تھے کہ جاوید صاحب کبھی اپنے کمرے میں نہیں بلاتے ہیں۔ کارکنوں کے پاس خود چل کر آتے ہیں۔ سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور بڑے ادب سے پیار سے مشورے لیتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ مجھے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ مضامین کی سرخیوں پر بڑی توجہ دیتے تھے کہ سرخی چونکا دینے والی ہونی چاہئے۔ ان دنوں سیاسی انٹرویوز کے ساتھ میں فلمی ستاروں کے انٹرویو بھی کرتا تھا۔ پاکستانی فلمی صنعت عروج پر تھی۔ ہیرو ہیروئنیں سیاستدانوں سے زیادہ مقبول تھیں۔ میں نے دیبا خانم کے بارے میں مختصر سی تحریر پیش کی۔ داتا دربار میں ان کے رونے اور دعائیں کرنے کا ذکر کیا۔ سرخی نذیر ناجی نے یہ نکالی ۔’داتا دربار میں رونے والی لڑکی دیبا تھی‘۔ یہ سرخی جاوید صاحب کو بہت پسند آتی ہے۔ اور میری میز پر آکر بڑی تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔ ایسی سرخیاں ہونی چاہئے جو پڑھنے والے کا ہاتھ پکڑ لیں۔

اخبار جہاں کے سر ورق کا شروع سے بہت خیال رکھتے تھے۔ پاکستان کی حسینائیں ٹائٹل پر جلوہ گر ہوتی تھیں۔ فلسفہ یہ تھا کہ اس حسن کی وجہ سے قاری اخبار جہاں اٹھاتا ہے۔ اس کے پیرہن میں ہم اسے سنجیدہ تحریریں پڑھنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ اندر پیر علی محمد راشدی۔ ابن انشا۔ جمیل الدین عالی۔ اور اس پائے کے اخبار نویسوں ادیبوں کی تحریریں ہوتی ہیں۔ اخبار جہاں کی پہلی سالگرہ مجھے نہیں بھولتی ۔ اس کھلے ہال کے درمیان میں میز کرسیاں رکھ کر کیک کاٹا جارہا ہے۔ ذرا تصور کیجئے۔ جنگ کی سلطنت کے بانی میر خلیل الرحمن ان کے سگے بھائی میر حبیب الرحمن۔ میر جاوید رحمن موجود ہیں۔ قدرت اللہ شہاب ہیں۔ ابن انشا۔ جمیل الدین عالی۔ نور الصباح بیگم۔ اخبار جہاں کا ادارتی اسٹاف سب میر جاوید رحمن کو مبارکباد دے رہے ہیں۔

جاوید صاحب کو انٹلی جنس ایجنسیوں کے بارے میں جاننے کا بہت شوق تھا۔ اکثر وہ سی آئی اے ۔ ساواک۔ موساد۔ اور کے بی جی کے بارے میں چونکا دینے والی معلومات کا تبادلہ کرتے۔ پھر کہتے شام صاحب۔ چلیں کتابیں ڈھونڈتے ہیں۔ انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں لبرٹی بک شاپ ان کا پسندیدہ مقام تھا۔ یہاں سے وہ ہزاروں روپے کی کتابیں خرید کر خود اٹھاکر گاڑی تک آتے۔ ان خفیہ اداروں کی خوفناک کارروائیوں کے بارے میں تفصیلات اخبار جہاں میں سلسلہ وار شروع کی جاتیں۔ جو بہت دلچسپی سے پڑھی جاتیں۔

اس طرح ملکوں کے قومی دنوں پر بھی ان کی خواہش ہوتی تھی کہ اس ملک کے بارے میں قدیم و تازہ ترین معلومات اچھے پیرائے میں شائع کی جائیں۔میں ’اخبار جہاں‘کی اوائل کی ٹیم میں شامل تھا۔ اس لیے ان ہی دنوں کا ذکر کررہا ہوں۔ جب پرنٹنگ ٹیکنالوجی اتنی آگے نہیں بڑھی تھی۔ مواصلات بھی ابھی جدید تر نہیں تھے۔ نمائندوں کی ڈائریاں پی آئی اے کارگو سروس سے آتی تھیں۔ کوریئر سروسز ابھی پاکستان میں نہیں آئی تھیں۔

جاوید صاحب کا یہ شوق تو دنیا بھر کو معلوم ہے کہ ستارے کیا کہتے ہیں۔ صرف مشہور اور عالمی شخصیت کا ہی نہیں دفتر کے اسٹاف کے ستاروں کے بارے میں بھی باتیں کرتے تھے۔ اور کارکن کے ستارے کے حوالے سے اس کی کارکردگی کا اندازہ لگاتے تھے ۔ کسی شخصیت کا انٹرویو ہوتا یا دفتر آنے والی ہوتی تو اس کے ستارے کے بارے میں پہلے سے معلومات حاصل کی جاتیں۔

دنیا میں پیشن گوئیوں کے حوالے سے سرکردہ نام نوسٹراڈامسNostradamus کا ہے۔ فرانس کے اس فزیشن(معالج) کی کتاب کا پہلا ایڈیشن 1555میں شائع ہوا۔ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود نوسٹراڈامس اب بھی مستقبل پڑھنے کے لیے بڑا حوالہ ہے۔ اب تو اس کی تعبیر اور تاویل کے لیے باقاعدہ ایک نظام بھی تشکیل دیا گیا ہے۔ جب یہ کتاب آئی۔ اس وقت تک امریکہ دریافت نہیں ہوا تھا۔ جاوید صاحب بڑی دلچسپی سے سب کو ساتھ بٹھاکر کہتے تھے کہ اسمیں امریکہ تلاش کریں۔ دیکھیں نوسٹراڈامس نے اس سلسلے میں کیا کہا ہے۔

سرورق کی تصاویر اس وقت کے سب سے اعلیٰ فوٹو گرافر محمد اسرار بناتے تھے۔ وہ جب ٹرانسپیرنسی لے کر آتے تو جاوید صاحب محدب عدسے سے اسے دیکھتے۔ اب تو ٹرانسپیرنسی سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل یاد آتی ہے۔ رنگین تصاویر ان دنوں ٹرانسپیرنسی میں محفوظ ہوتی تھیں۔ جاوید صاحب نئی نئی ایجادات اور جرنلزم کے نئے طریقوں سے بہت شغف رکھتے تھے۔ بھٹو صاحب کے دَور میں ملک میں بہت خطرناک سیلابی صورت حال ہوگئی تھی۔ جاوید صاحب نے مشورہ کیا کہ اس کا رنگین ٹائٹل بننا چاہئے۔ اسرار صاحب بھی تیار ہوگئے۔ میرے خیال میں پہلی بار کسی میڈیا کمپنی نے ایرو کلب سے ایک سیسنا طیارہ چارٹر کیا۔ اس کے پائلٹ راجپوت صاحب تھے۔ کراچی ایئرپورٹ سے اڑ کر ہم نے پورے سندھ پر پرواز کی۔ بہت سی تصویریں بنائیں جو اخبار جہاں کے سر ورق پر شائع ہوئیں۔

اس قسم کی مہمات کا ہمیں بھی لطف آتا تھا اور جاوید صاحب اس کی بخوشی منظوری دے دیتے تھے۔ 1970 کے عشرے کا دَور اُردو صحافت اور خاص طور پر میگزین صحافت کے لیے عروج کا دَور تھا۔ نئے نئے تجربات ہورہے تھے۔ پرنٹنگ میں بھی نئی جہات تلاش کی جارہی تھیں۔ میر خلیل الرحمن کی خواہش تھی کہ ان کے بڑے صاحبزادے۔ میر جاوید رحمن بین الاقوامی معیار کی پرنٹنگ اور پبلشنگ کی تکنیک سے آگاہ ہوں۔ وہ اسی لیے تربیت کی بعض پیشکشوں پر جاوید صاحب کو باہر بھیجتے تھے۔ اخبار جہاں کو صرف پاکستان کا ہی نہیں دنیا میں اُردو کا سب سے کثیر الاشاعت ہفت روزہ بنانے میں میر جاوید رحمن کی قیادت میں 1967 سے 1975 تک کی ٹیم کا مرکزی کردار تھا۔ اس وقت اس شاندار عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔

بعد میں جب جنگ کراچی کا ایڈیٹر مقرر ہوا۔ اور بعد میں گروپ ایڈیٹر بھی۔ تو مجھے یاد ہے کہ میر جاوید رحمن مجھے بڑی محبت سے پہلی منزل پر کمرے میں لے گئے۔ اور اسٹاف سے ملوایا اور کہا کہ پہلے جنگ کراچی میں ایگزیکٹو ایڈیٹر۔ ڈپٹی ایڈیٹر رہے ہیں۔ محمود شام صاحب۔ پہلے پورے ایڈیٹر ہیں۔

کام کے دوران جاوید صاحب سے تکرار بھی ہوجاتی تھی۔ وہ سخت برہم بھی ہوتے۔ لیکن کچھ دیر بعد ہی وہ پھر اسی طرح مہربان اور دوست ہوجاتے۔ ایسے کئی واقعات یاد آرہے ہیں۔ جن سے آنسو امڈ آتے ہیں۔ جب جب میں جنگ سے وابستہ بھی نہیں تھا۔ اس وقت بھی جاوید صاحب کا انس اور لگائو اسی طرح رہتا۔ جنرل اسلم بیگ کے دَور میں سرگودھے میں ضرب مومن کی مشقوں میں وہ جنگ کی طرف سے آئے تھے۔ سی این این کی نشریات دیکھیں اور رومانیہ کے ڈکٹیٹر چائوسکو کو سر عام رسوا ہوتے دیکھا۔ میں نے وہیں ایک نظم لکھی۔ جو جاوید صاحب نے کہا کہ یہ جنگ میں شائع ہوگی۔ چند سطریں ملاحظہ ہوں۔

خبر ملی ہے محلوں میں گھس گئے ہیں عوام

خبر ملی ہے کہ شاہوں کا اقتدار گیا

خبر ملی ہے کہ زباں مل گئی رعایا کو

خبر ملی ہے کہ نادار سانس لینے لگے

اٹھائو ہاتھ کہ یوم حساب آپہنچا

قدم بڑھائو کہ اب ہر خوشی ہماری ہے

اٹھائو جام کہ جمہوریت کا موسم ہے

ملائو ہونٹ کہ اب زندگی ہماری ہے

ان کی عنایت کہ یہ نظم بہت نمایاں شائع ہوئی۔

اب یاد آتا ہے کہ ہم نے جاوید صاحب سے بہت کچھ سیکھا۔ اتنے بڑے اخباری گروپ کے سربراہ۔ مگربہت زیادہ تحمل برداشت۔ اپنے رفقائے کار۔ کارکنوں کا بہت زیادہ خیال۔ ان کی ضروریات کا احساس۔ کسی کی طلب سے بہت پہلے از خود۔ اب بھی جب ہم وابستگان جنگ آپس میں ملتے ہیں ۔تو جنگ بلڈنگ کی تیسری منزل کی یادیں دہراتے ہیں۔ بہت سے خوشگوار لمحات آج کل کی اُداسیوں کو بھی بہاراں میں تبدیل کردیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ میر جاوید رحمن۔ میر خلیل الرحمن اور سب رفتگاں کے درجات بلند کرے۔