قومی سیاست: انقلاب اور ردِ انقلاب

April 02, 2023

(گزشتہ سے پیوستہ)

بی بی کی شہادت نے مگر سیاست میں ایسا خلا پیدا کیا جسے اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت پُر کرنے کے قابل نہیں تھی۔ کپتان میں کوئی خوبی ہو یا نہ ہو، وہ مگر طویل عرصہ سیاسی میدان میں رہنے اور جدوجہد کرنے کے بعد بالآخر طاقت ور حلقوں کی نظر میں بطور متبادل قیادت آچکے تھے اور ہوا بھی ایسا ہی، 2018 میں ایک ہائبرڈ بندوبست کے تحت عمران خان وزیراعظم کے طور پر برسرِاقتدار آئے، اور اپنے تقریباً چار سال پرمحیط عرصۂ اقتدارکے خاتمے پر ان کے طرزِ سیاست سے لاکھ اختلافات کے باوجود انہوں نے ان حلقوں کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کیا جو ہمیشہ اقتدار میں شراکت کے خواہاں رہے ہیں۔ انہوں نے بیانیوں کی سیاست میں اپنی متحارب ہر سیاسی جماعت کو شکست دی اوراس کے علاوہ سیاست ہے ہی کیا۔ یہ ملکی سیاست میں ایک انقلاب ہے جسے اگر آگے بڑھنے سے روکا گیا تو دو کام ہو سکتے ہیں، اول، ملک میں سیاسی نظام مزید ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کا شکار ہو جائے یا طاقت ور حلقے براہِ راست اقتدار میں آجائیں اور اس انقلاب کے آگے بند باندھیں جو فی الوقت ناممکن دکھائی دے رہاہے۔ یہ انقلاب کیا ہے؟ یہ انقلاب ان اداروں کا ایکسپوز ہونا ہے جنہوں نے کبھی پاکستان کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی کے پھندے پر چڑھایا اور کبھی ایک منتخب وزیراعظم کو جلاوطن ہونے پر مجبور کیا۔عمران خان دراصل وہ کام ہی کر رہے ہیں جو مقتدر حلقوں کے سب سے زیادہ عتاب کا نشانہ بننے والی جماعت پیپلز پارٹی کو کرنا چاہئے تھا جس کے باعث پیپلز پارٹی کے سپورٹرز نے ہی پاکستان تحریکِ انصاف میں نیا جوش و ولولہ پیدا کیا۔ عمران خان سے اس دوران بہت سی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں اور ہو بھی رہی ہیں مگر انہوں نے طاقت ور حلقوں کوہر میدان میں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ کام آصف علی زرداری نے اس وقت کیا جب انہوں نے اینٹ سے اینٹ بچانے کی بات کی تھی مگر ان کو سیاسی میدان میں کوئی سپورٹ ملی اور نہ ہی عوام میں وہ اپنے بیانیے کو اس انداز سے پیش کرنے میں کامیاب ہوئے جس انداز سے عمران خان نے کیا ہے۔ میری نظر میں پاکستان میں جمہوری تناظر میں یہ ایک انقلاب ہے جس کے تسلسل کو قائم رکھنے کی ذمہ داری سیاست دانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ کپتان کی جنگ اگر ایک فرد سے ہے تو یہ انقلاب بہت جلد ردِانقلاب میں تبدیل ہوجائے گا جس سے ملک میں جمہوری تسلسل پر ناقابلِ بیاں اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ وقت ہے تمام سیاسی جماعتوں میں مفاہمت کا، اور کپتان کو اگر اس کے لیے کوئی یوٹرن لینا بھی پڑتا ہے تو کوئی حرج نہیں کیوں کہ جمہوری ارتقا کے باب میں ہم اگر ایک قدم آگے بڑھانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ یقیناً بہت بڑی کامیاب ہوگی، اس کے لیے مگر آمرانہ رویوں اور ان کی اولادوں سے دور رہنا ہی سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ اس تناظر میں اگلے ممکنہ سیاسی منظرنامے میں پیپلز پارٹی کے لیے دہلی ہنوز دور اَست والا تاثر درست نہیں ہے بلکہ پیپلز پارٹی نے کراچی، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں اگلے عام انتخابات کی خاموشی سے تیاری جاری رکھی ہوئی ہے جس کے باعث اگلی حکومت ممکنہ طور پر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی ہو سکتی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت ہونے کی دعویدار ہے تو پیپلز پارٹی کی ساری سیاست ہی مقتدرہ کے خلاف رہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک پارٹی سے صدر اور دوسری سے وزیراعظم آجائے ،اور ممکن ہے کہ آئندہ وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری کرسکے اور حالات نے اگر اس سے مختلف رُخ اختیار کیا تو یہ ردِانقلاب ہوگاجس کی لپیٹ میں یہ پورا نظام آسکتا ہے، یہ ملک کی تمام بڑی او رچھوٹی سیاسی جماعتوں کے تدبر کا امتحان ہے اور ان ووٹرز کا بھی جو ملک میں حقیقی جمہوریت کو پھلتا پھولتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں ایک نئی سیاسی جماعت کا تشکیل پانا بعید از قیاس نہیں جو ممکنہ طور پرمعتدل بائیں بازو کی نمائندہ ہو سکتی ہے اور تمام جماعتوں کے ناراض رہنما اس جماعت میں یکجا ہو سکتے ہیںـ جو اس وقت تو طاقت ور حلقوں کے مخالف نظر آ رہے ہیں کیوں کہ پاکستان میں انقلاب کا نعرہ مقبول ہی تب ہوتا ہے جب آپ طاقت ور حلقوں کے خلاف نعرہ بلند کرکے میدان میں اُتریں۔

بائیں بازو کی سیاست کی بات کی جائے تو ملک میں حقیقی بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا اب کوئی وجود نہیں رہا۔ این جی او زدہ یہ سیاسی جماعتیں دراصل فوٹو سیشن کے لیے بنائی گئی ہیں جس سے زیادہ ان کا کوئی مقصد نہیں۔ درویش نے پہلے بھی یہ عرض کیا تھا کہ سیاسی کارکنوں میں سیاسی شعور کی بالیدگی کے لیے وارڈ کی سطح پر ان کی تربیت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور بائیں بازو میں بھی اب یہ روایت دم توڑ چکی ہے جس کے باعث نوجوانوں کو Exploitکرکے ’’سرخ ہے سرخ ہے، ایشیا سرخ ہے‘‘ کی طرز کے نعرے لگوانے کا سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔ چناں چہ ایسی کوئی بھی لاحاصل کوشش کرنے سے بہتر یہ ہے کہ موجودہ سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک میں شامل ہوکر انقلاب کے اپنے معصومانہ خواب کی تعبیر حاصل کی جائے کیوں کہ پاکستان کی پون صدی پر محیط سیاسی تاریخ میں بائیں بازو کی سیاست کا ہلکا سا رنگ بھٹو دور میں نظر آیا ، وہ بھی مگر جلد ہی مصلحتوں کا شکار ہو گئے تھے۔ یہ بائیں بازو کی جماعتوں کے لیے ایک پیغام ہے کیوں کہ ان کی ناکامی نوجوانوں کو بائیں بازو کے سرخ رنگ کے تلنگے سے مزید دور کردے گی۔ اگلے سیاسی منظرنامے میں مذہبی جماعتوں اور بالخصوص تحریکِ لبیک پاکستان کا کردار اہم ہوسکتا ہے مگر ان میں فی الحال اس انقلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں ہے، تاہم یہ انقلاب کو ڈی ٹریک کر سکتی ہیں چناں چہ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کا ان سے دور رہنا ہی پاکستان میں انقلاب یا حقیقی تبدیلی جسے کپتان حقیقی آزادی کہتے ہیں، کا باعث بنے گا جس کے لئےدرویش کپتان سے دست بستہ گزارش کرے گا کہ آپ کا موجودہ بیانیہ بہت پرکشش ہے اور آپ دن بدن حقیقی تبدیلی یا آزادی کے قریب ہو رہے ہیں مگر Absolutely Not والے بیانیے کی طرح دوبارہ ان حلقوں سے رابطہ نہ کیجئے گا جنہیں آپ کھلے بندوں چیلنج کر چکے ہیں کیوں کہ ردِانقلاب کا عمل شروع ہوا تو آپ کی سیاست کا بوریا بستر گول ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)