سندھ: محکمۂ بورڈز و جامعات کے ایوارڈز کے معاملے میں سنگین بے قاعدگیوں کا انکشاف

April 02, 2023

—فائل فوٹو

محکمۂ بورڈز و جامعات کے تحت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ایوارڈ دینے کے معاملے پر سنگین بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

اس معاملے میں ایسے افسران اور ملازمین کے نام شامل کر لیے گئے ہیں جن کو محکمۂ بورڈز و جامعات میں آئے ہوئے چند ماہ ہی ہوئے تھے یا پھر ان کا نام شامل کرنے کے لیے نئی فہرست جاری کی گئی۔

محکمۂ بورڈز و جامعات کی تاریخ میں ایوارڈ کے نام پر 50 ہزار تا سوا لاکھ دینے کی تقریب پہلی بار کی جا رہی ہے جس میں جامعات کے اساتذہ کے ساتھ محکمۂ بورڈز و جامعات کے من پسند ملازمین کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔

26 جامعات کے59 ملازمین و اساتذہ جبکہ محکمہ بورڈز و جامعات کے 11 ملازمین کو یہ ایوارڈ دیے جائیں گے۔

محکمۂ بورڈز و جامعات نے 29 مارچ کو جب پہلی مرتبہ یہ نوٹیفکیشن نکالا تو اس میں ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے 2 اساتذہ کے نام تھے، تاہم اگلے دن نیا نوٹیفکیشن نکلا اور اس میں ڈاؤ یونیورسٹی سے 3 نام کا اضافہ ہو گیا جن میں ڈائریکٹر فنانس زین العابدین شاہ، ایڈشنل سیکریٹری حامد علی شاہ اور اسسٹنٹ منیجر محمد سلیم کے نام شامل ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ محمد سلیم چند ماہ قبل تک پرائیویٹ طور پر سیکریٹری بورڈز و جامعات مرید راہموں کے پی ایس کے طور پر کام کر رہے تھے اور اب اس کو ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کا اسسٹنٹ منیجر بتایا گیا ہے۔

اسی طرح ڈپٹی سیکریٹری فرحان اختر جن کو ایڈیشنل سیکریٹری بنا دیا گیا ہے اسے 4 ماہ سے بھی زائد عرصہ آئے ہوئے ہوا ہے مگر وہ ایوارڈ کا حق دار ہو گیا۔

بورومل جس کا تبادلہ دوسرے محکمے میں ہوئے کئی ماہ ہو چکے ہیں اور اس کے پاس ڈپٹی ڈائریکٹر لیگل کا چارج تھا، اسے بھی نوازا گیا ہے، اس کے علاوہ چند ماہ قبل آئے ہوئے سیکشن افسر ریکارڈ مینجمنٹ ذکا اللّٰہ میر بحر جس کو ایس اینڈ جی اے سی ڈی نے شوکاز نوٹس دیا تھا، اسے بھی ایوارڈ مل رہا ہے۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر یونس بلوچ کو آئے ہوئے ایک برس سے بھی کم عرصہ ہوا ہے، دوسرے نوٹفکیشن میں اس کا نام شامل کیا گیا ہے، سلیکشن افسر بورڈز محمد زبیر کتبر کو بھی محکمۂ بورڈز میں آئے ہوئے ایک برس سے کم عرصہ ہوا ہے۔

سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر پروفیسر منور عباس نے محکمۂ بورڈز و جامعات کے افسران کو ایوارڈ کے نام رقم کی بندر بانٹ کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جامعات کے اساتذہ اور ملازمین کو ایوارڈ اور اعزازات دینے کا کام سندھ ایچ ای سی کا ہے نہ کہ محکمۂ بورڈز و جامعات کا۔

انہوں نے کہا کہ ہونا تو چاہیے تھا کہ ناقص کارکردگی پر محکمۂ بورڈز و جامعات کا محکمہ ختم کر کے بورڈز کالج ایجوکیشن کو دینے چاہیے اور جامعات سندھ ایچ ای سی کو مگر صورتِ حال یہ ہے کہ جو محکمۂ تعلیمی بورڈز میں کنٹرولرز، چیئرمین، سیکریٹری، آڈٹ افسر اور جامعات میں وائس چانسلرز اور ڈائریکٹر فنانس نہ لگا سکے اس کے افسران کو انعام دیا جا رہا ہے۔

سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر نے کہا کہ محکمۂ بورڈز و جامعات میں 18 سے زائد افسران، ریٹائرڈ، او پی ایس، دہرے چارج اور ڈیپوٹیشن پر ہیں جن کو ہٹانے کا فیصلہ سندھ ہائی کورٹ دے چکا ہے اور ایسے ملازمین کو ایوارڈ اور رقم دینا توہینِ عدالت ہو گی۔

سپلا نے وزیرِ اعلیٰ سندھ اور چیف سیکریٹری سندھ ڈاکٹر سہیل راجپوت سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔