افہام و تفہیم اور تدبر کی ضرورت

April 13, 2023

ملک اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے نازک اور بدترین دور سے گزر رہا ہے، معاشی طور پر ہم تباہی کا شکار ہیں تو دوسری جانب سیاسی اعتبار سے بھی پاکستان انتشار سے دوچار ہے،اس وقت سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہےکہ اداروں میں اختلافات بڑھ رہے ہیں، ملک آئینی بحران سے دوچار ہوتا دکھائی دے رہاہے، اعلیٰ عدالت نے نئے انتخابات کرانے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دائرآئینی درخواست پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کوکرانے کا حکم دیا ہے، بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تھا۔ وفاقی حکومت اور پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں، وفاقی کابینہ نے اس فیصلے کو مسترد کردیا اور اس پر عمل در آمد نہ کرنے کا اعلان کیا،قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی۔بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی خالد مگسی نےسپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ مسترد کرنےکی قرارداد ایوان میں پیش کی۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی 44 ویں برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بعد سے جوڈیشری میں آمریت چل رہی ہے،عدلیہ کی آمریت تسلیم نہیں کرسکتے، موجودہ بحران چلتا رہا تو ہم ہوں گے نہ عمران آئے گا۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا جب ججز اس فیصلے سے متفق نہیں تو عوام کیسے ہوسکتے ہیں، جن ججز نے انکارکیا ان کے علاوہ فل کورٹ بنائیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پارلیمنٹ اپنی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کررہی ہے، جسے آئین کے خالق کا بھی اعزاز حاصل ہے اس وقت پار لیمنٹ کو بھی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے طریقہ کارمیں تبدیلی پر غور کرنا ہوگا،عمران خان کی خواہش پر ملک میں جمہوری عمل کو ڈی ریل کرنے اور آئینی بحران کو جنم دینے کیلئے پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل کی گئیں، حالانکہ یہ دونوں اسمبلیاں بہتر انداز میں کام کررہی تھیں خودچوہدری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ انہوں نے پانچ ماہ میں ریکارڈ کام کئے، دوسری جانب کے پی حکومت مستقل مزاجی کے ساتھ بہتر انداز میں کام کررہی تھی اس کو تحلیل کرنے کا کیاجواز تھا، افسوس ناک بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران کسی بھی جج نے پی ٹی آئی یا حکومتی وکیل سے یہ سوال نہیں کیا کہ اسمبلی توڑنے کی وجوہات کیا ہیں، موجودہ چیف جسٹس چند ماہ پہلےپی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں واپس جانے کا مشورہ دے رہے تھےتو وہ پنجاب اسمبلی کو اس کی آئینی مدت تک بحال کرنے کا حکم بھی دے سکتے تھے، پارلیمنٹ نے جہاں سپریم کورٹ میں اصلاحات کے بل پاس کئے ہیں وہیں اسے وقت مقررہ سے قبل صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سےبھی آئینی ترامیم لانا ہونگی جس میں ٹھوس جواز کے بغیر کسی کو بھی اسمبلی توڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے، کسی بھی اسمبلی کے انتخاب میں صرف حزب اقتدار کے ووٹرز کا کردارنہیں ہوتاحزبِ اختلاف کے حامیوں کا حق رائے دہی بھی شامل ہوتا ہے۔

زمینی حقائق بتارہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہو چکا۔چند مہربان دوستوں کیوجہ سے ابھی اس کا باضابطہ اعلان نہیں ہوا۔ ہمارے وہ دوست کب تک ہمارا ساتھ دیں گے، ان حالات میں سعودی عرب پاکستان کو 2؍ ارب ڈالرز دے گا جس کی تصدیق آئی ایم ایف نے بھی کردی ہے ، متحدہ عرب امارات سے فنڈنگ کا بھی انتظار ہے، اس سے کچھ صورت حال تبدیل ہوسکتی ہے،مالی مشکلات کی وجہ سے ایل سیز نہیں کھل رہیں، عالمی تجارت معطل ہے۔ ان حالات میں ملک کو صرف پنجاب میں انتخابات کرانے کے عوض 21ارب روپے کا بوجھ برداشت کرنا ہوگا، کے پی میں اخراجات الگ ہوں گے، ملک کے معاشی حالات کو سامنے رکھ کر سپریم کورٹ کو اپنی سوچ تبدیل کرنا چاہئےتھی مگر انہوں نے اپنے فیصلے سے خود کو متنازع بنوالیا، چار ججز پہلے ہی اس بینچ سے الگ ہوچکے تھے،عمران خان حکومت کی نااہلی کی وجہ سے پاکستان کو اس وقت جس معاشی تباہی کا سامنا ہے ،عمران خان کی موجودہ سیاست اس میں مزید اضافہ کررہی ہے، امریکی جریدے ٹائم نے اپنی رپورٹ میں پی ٹی آئی حکومت کے چا رسالہ دور کو بے نقاب کردیا ہے جس میں پاکستان کی معاشی تباہی کا ذمہ دارعمران خان کو ٹھہرایا گیا ہے، ان کی معاشی پالیسی کو پاکستان کےمعاشی بحران کی وجہ قرار دیا گیا،ان پر دہشت گردوں کی سر پرستی کا الزام بھی لگایا گیا ہے،ان حالات میں جب کہ ملک کو معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے ،عدالت اور حکومت کے درمیان لڑائی سےملک میں آئینی بحران جنم لے گا، پی ڈی ایم قیادت کا موڈ اور تیور مزاحمتی رویہ اختیار کرنے کا لگ رہا ہے اس سے بحران مزید سنگین اور ملک میں انتشار و تقسیم کی صورت پیدا ہوگی۔ملک جن مسائل سے دوچار ہے اس کے پیش نظر معاملات بگڑنےنہ پائیں ،سیاسی جماعتیں اور عدالت کے غیر جانب دار ججز بھی آگے بڑھیں ملک کو بحران سے نکالنے کی کوشش کریں تاکہ ایسی صورتحال نہ پیدا ہوجس سے قوم میں انتشار اور افتراق کو ہوا ملے۔ اس وقت ہمیں ملک اور آئین کو بچانے کیلئے دھمکیوں کی نہیں افہام و تفہیم اور تدبر کی ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)