سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا

May 30, 2023

پاکستان اپنی تاریخ کے منفرد سیاسی سماجی اور معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد، سابق حکمران جماعت، پاکستان تحریک انصاف کو کچلنے کیلئے تمام وہ حربے استعمال کر رہا ہے جو کسی بھی مہذب ریاست کے شایان شان نہیں۔9 مئی کے واقعات بلاشبہ قابل مذمت ہیں لیکن ان واقعات کی آڑ میں بے گناہ سیاسی کارکنان کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنا،ان پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کرنا، انکی خواتین اور بچوں کو بلیک میلنگ کیلئے استعمال کرنا، اور اپنے عارضی اقتدار کو طول دینے کیلئے خوف و ہراس پر مبنی اقدامات کرنے سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے شہباز حکومت اور انکے ساتھی یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ شاید، مکافات عمل کا سلسلہ دوبارہ شروع نہیں ہوگا،جیلوں اور کال کوٹھڑیوں کے دروازے مستقل طور پر مقفل کر دیئے جائینگے، ہتھکڑیوں اور عدالتی پیشی کا باب بند ہو جائے گا،حکمراں اتحاد سے وابستہ کارکنوں کے دروازوں پر پولیس دستک نہیں دیگی، ریاست کی مقتدرہ ہمیشہ انکی پشت پر رہے گی، اور یہ لوگ اسی طرح انکی آنکھوں کا تارہ بنے رہیں گے ان کیلئے میں اتنا ہی عرض کروں گا۔

تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ

دنوں کی ادلا بدلی کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔

پی ڈی ایم کی حکومت کی جانب سے غداروں کی نئی فصل کاشت کی جا رہی ہے۔ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کے رہنماؤں کی تصویریں سڑک کے کنارے آویزاں کر کے ان پر غداری کے لیبل چسپاں کئےجا رہے ہیں۔اس حکمراں گروہ میں اگر کوئی تاریخ کا شعور رکھنے والا صاحب علم موجود ہو تو وہ انہیں بتائے کہ غدار بنانے کی فیکٹریاں ستر سال سے لگی ہوئی ہیں۔ان فیکٹریوں میں تراشے گئے غداروں کے نام آج بھی تاریخ کے صفحات پر چمک رہے ہیں لیکن انہیں غدار بنانے والوں کا نشان بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔خان عبدالغفار خان،جی ایم سید،محترمہ فاطمہ جناح،ولی خان،حبیب جالب،اور ان گنت سیاسی زعما غداری کے لقب سے ملقب ہوئے۔لیکن وہ سب تاریخ کے کٹہرے میں سرخرو ٹھہرے۔میرے نزدیک کسی سیاسی کارکن کو ملک دشمن قرار دینا اور غداری کے جرم میں مقدمہ قائم کرنا ایک گالی سے کم نہیں۔تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سیاسی کارکن سرخرو ہوتے ہیں اور یہی حکمراںتاریخ کی عدالت میں سر جھکائے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔’’غدار ڈرامے‘‘ کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جونہی کوئی شخص حکومت کے کہنے پر پریس کانفرنس کرتا ہے تو اس کے دامن سے غداری کا داغ فورا مٹ جاتا ہے۔اس واشنگ مشین سے کتنے ہی داغ دھوئے جا چکے ہیں اور کتنے دھلنے کیلئے تیار ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کے لئے غداروں کی فہرست میں اضافہ کرنا کب تک جاری رکھیں گے۔

عمران خان کی سیاسی حکمت عملی سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں۔ان کا انداز حکمرانی آپ کو نا پسند ہو سکتا ہے۔ان کے بعض ساتھیوں کی ساکھ پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ان کی عوامی مقبولیت کے نعرے کو دیوانے کی بڑ کہہ سکتے ہیں،ان کے دور اقتدار کو کوئی بھی اچھا یا برا نام دے سکتے ہیں،لیکن تحریک انصاف کے رہنماؤں پر غداری کے الزامات عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔کیا کوئی اس حکمراں ٹولے سے پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ آج ملک کی معاشی صورت حال کیا ہے؟آئی ایم ایف آپ سے ڈیل کرنے کو کیوں تیار نہیں؟پاکستان میں ڈالر کا ایکسچینج ریٹ کہاں پہنچ چکا ہے؟ملک میں خط غربت سے نیچے جانے والے افراد کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے؟کیا تاریخ کے ناکام ترین حکمرانوں سے کوئی یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش کیوں ہے؟سرمایہ کار ملک چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں؟مہنگائی نے عام آدمی کا کیا حشر کر دیا ہے؟موجودہ حکومت کی بچگانہ پالیسی کے بدولت معیشت کا پہیہ جام ہوچکا ہے۔عالمی سفارت کاری کے میدان میں تنہائی کا یہ عالم ہے کہ چین جیسا دوست ملک آرمی چیف سے بات کرنے کو ترجیح دیتا ہے اور سیاسی حکمرانوں سے معاملات کرنا مناسب خیال نہیں کرتا۔بدقسمتی سے،عوامی خدمت اور عوامی مسائل کا حل نامی ایجنڈاشہباز حکومت کی فہرست میں شامل ہی نہیں ہے۔عوام اور فوج کو سامنے کھڑا کرنے کی مذموم کوشش کرنے والے اس گروہ نے ایک جماعت کو تو دیوار سے لگا دیا لیکن عوام میں اپنی رہی سہی ساکھ خاک میں ملا دی۔پاکستانی قوم اپنی افواج سے بے پناہ پیار کرتی ہے۔ان کی قربانیوں کی قدر کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی نوشتہ دیوار ہے کہ عمران خان اس وقت مقبول ترین لیڈر ہے۔کچھ الیکٹیبلز کے چھوڑنے کے باوجود عمران خان کی مقبولیت میں بڑاشگاف نہیں پڑا۔

محترم وزیراعظم۔

آپ سے پہلے بھی کئی حکمراں آئے اور چلے گئے،تمام حکمراںاپنے اپنے اعمال اور کارناموں کی بدولت تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔ذرا سوچیں آپ کو تاریخ کس نام سے یاد رکھے گی۔جب یہ کرو فر ختم ہوجائے گا،جب اس اسٹیج ڈرامے سے آپ کا عارضی کردار مکمل کروا لیا جاے گا،جب غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا اختیار واپس لے لیا جائے گا،جب آپ کے اشارہ ابرو پر جان نچھاور کرنے والے ادارے آپ کے سامنے سے ہٹ جائیں گے تب آپ کے سود و زیاں کا حساب ہوگا،آپ کے افعال و کردار کا جائزہ ہوگا۔چند ماہ بعد تاریخ آپ کو کس نام سے یاد کرے گی اس کا فیصلہ زیادہ دور نہیں۔

کچھ کام نہ آوے گا تیرے، یہ لعل زمرد سیم و زر

جو پونجی بات میں بکھرے گی پھر آن بنے جاں اوپر

نقارے نوبت بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر

کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھپر

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا