جشنِ جَون

June 01, 2023

’’تمہارے خیال میں اِس وقت حیات، اردو کے تین مقبول ترین شاعر کون سے ہیں،‘‘ جون بھائی نے نوے کی دہائی کے وسط میں یہ سوال مجھ سے پوچھا تھا۔میں نے جھٹ سے جواب دیا کہ پہلے نمبر پر جون ایلیا۔ میرا خیال تھا وہ میرے جواب سے خوش ہوں گے مگر جون بھائی نے مسکرائے بغیر کہا ’سنجیدگی اختیار کیجئے‘۔ ہم نے کچھ دیر اس موضوع پر بحث کی اور پھر جون بھائی نے فیصلہ کُن انداز میں کہا’ احمد فراز آج کے مقبول ترین شاعر ہیں‘۔ پھر ہم نے اتفاق کیا کہ دوسرے نمبر پر مقبول ترین شاعر منیر نیازی ہیں۔ جون بھائی نے توقع بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ’اور تیسرے نمبر پر؟‘ میں نے کہا جون بھائی میرے خیال میں ظفر اقبال۔ میرے جواب پر جون بھائی اپنی بے مزگی پوری طرح چُھپا نہیں پائے۔ کچھ توقف کہ بعد جون بھائی نے ذرا مضطرب لہجے میں سوال کیا کہ تم مجھے آج کے پانچ مقبول ترین شعراء میں شامل کرو گے یا نہیں؟ میں نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا ’شہزاد احمد کے ساتھ آپ کو بھی شامل کیا جائے گا۔‘ کچھ دیر خاموشی کے بعد جون بھائی فرمانے لگے ’یہ فہرست زیادہ قابل فہم ہو جاتی ہے اگر یہ بات مدِ نظر رہے کہ یہ لاہور میں بیٹھ کر ترتیب دی جا رہی ہے۔‘

وقت گزر گیا۔ سارا منظر ہی بدل ہو گیا۔ پچھلے ہفتے لاہور میں ’جشنِ جَون ایلیا‘ کی سہ روزہ تقریبات منائی گئیں، جس میں نوجوانوں کی کثیر تعداد اس عقیدت کے ساتھ شریک ہوئی گویا جشنِ جون اولیاء منایا جا رہا ہے۔ جشن کے مدارالمہام معروف شاعر عباس تابش کا فیسٹیول سے ایک روز پہلے فون آیا، کہنے لگے یہ فیسٹیول کروانا تو بہت جوکھم کا کام ہے، اس کی طویل منصوبہ بندی، انتظامات اور جزیات نے تو خون تھکوا دیا۔ تابش صاحب کی بات سُن کر سب سے پہلے جون بھائی کا ہی ایک شعر ذہن میں کوندا، فرماتے ہیں ’’رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب... خون تھوکوں تو واہ واہ کیجے‘‘۔ تو قبلہ عباس تابش، واہ واہ۔ آپ نے خون تھوکا اور رنگ بھی چوکھا آیا، آپ کو اور ’عشق آباد‘ کی ساری ٹیم کو، بالخصوص آپ کے سپہ سالاروں حماد نیازی اور عاطف یاسر کو ایک یادگار تقریب کے انعقاد پربہت بہت مبارک باد۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تو اب جشنِ جون ایلیا منعقد کیا ہے مگر اردو گلوب پر یہ جشن بہت برسوں سے جاری ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ دس پندرہ سال سے جون ایلیا اردو دنیا کے مقبول و مرغوب ترین شاعر ہیں۔ یہ دعویٰ از روئے محبت نہیں کیا جا رہا، یہ حقیقت ہے، چار سُو آیات بکھری ہوئی ہیں، سوشل میڈیا کو دیکھیے، نمایاں سرچ انجن کے ڈیٹا پر نظر ڈالئے، یوٹیوب وڈیوز پر آمدورفت کا جائزہ لیجئے، بلاگ گنیے، فیس بک صفحات کی بڑھتی ہوئی تعداد کا احاطہ فرمائیے، بے شک یہ سب جون ایلیا کے مفتوحہ علاقے ہیں، جون ایلیا کے زیرِ اثر ایک پوری نسل شاعری کر رہی ہے، اور جو شاعری نہیں کر پاتے وہ جون جیسا حلیہ بنا لیتے ہیں، ان کی پڑھت کا انداز اپنا لیتے ہیں، یعنی کسی نہ کسی طور ’جون جانی‘ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ (کچھ نادان دوست ایسے بھی ہیں جو فرماتے ہیں کہ جون ایلیا بس یونہی سا شاعر ہے، جو اپنے حلیے اور اسٹائل کے باعث مقبول ہوگیا ہے۔ عرض یہ ہے کہ آدمی فقط حلیے کی بنا پر جون ایلیا نہیں بنتا، چاہت علی خان بن جاتا ہے)

سچ تو یہ ہے کہ جون بھائی مقبول ترین شاعر کی سطح سے بھی اوپر اٹھ کر گویا کلٹ بن چکے ہیں۔ کئی ایسے نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے جنہیں جون بھائی کے شعر نہیں یاد ہونا چاہئیں مگر یاد ہیں، یعنی انہیں کسی اور شاعر کا کوئی شعر یاد نہیں، اردو بھی ٹھیک سے نہیں بول پاتے، مگر جون ایلیا کے شعر یوں آنکھیں بند کر کے پڑھتے ہیں جیسے یہ شعر انہوں نے خود کہہ رکھے ہیں، جیسے وہ اپنی قلبی واردات سُنا رہے ہیں اور یہ معاملہ ہمارے ملک تک محدود نہیں رہا۔ یو ٹیوب پر ایک ہندوستانی ویڈیو نظر سے گزری جس میں دِلی میں نوجوانوں کا ایک گروہ جون بھائی کی سال گرہ منا رہا ہے۔ تجسس میں اُس گروہ کے روحِ رواں ششانک شُکلا سے بات کی تو وہ کہنے لگے ’ہم ’جون ازم‘ کے ماننے والے ہیں اور ’جونسٹ‘ کہلاتے ہیں، دریافت کیا کہ جون ازم کیا ہے، فرمانے لگے کہ ’شاید‘ کا دیباچہ جون ازم کا منشور ہے، یہ ایک ورلڈ ویو ہے، اور ہم اس میں پورے کے پورے داخل ہو چکے ہیں۔‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہانِ جون خود آفریدہ ہے، جون کو نہ سرکار نے پروموٹ کیا، نہ کسی بڑی تنظیم نے، نہ کسی خاندانی مجاور نے۔ یہ اردو ہندی بولنے والوں کا اپنا فیصلہ ہے، جون بھائی اپنے شارح خود ہیں، اپنے حالی خود ہیں، جون ایلیا کا پروموٹر بھی جون ایلیا ہے، ان کی شاعری اور یوٹیوب پر چند ویڈیوز، یہ ہے جون ایلیا کی کُل مارکیٹنگ ۔

ہر عہد کے مقبول ترین شاعر میں بہت سی شاعرانہ خوبیاں تو ہوتی ہی ہیں لیکن ایک خوبی بہر حال ان سب میں مشترک ہوا کرتی ہے، وہ سب روحِ عصر کے بہترین نمائندے ہوتے ہیں، اور پھر ’بیاں اپنا‘ یعنی اظہار کا وہ پیرایہ جو اس عہد کی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوتا ہے۔ لوگوں کے خواب بکھر گئے ہیں، لوگ ناکام ہو گئے ہیں، لوگ حاضر و موجود سے بیزار ہیں، ان کا کوئی امام نہیں، یہ جھنجلائے ہوئے لوگ ہیں، ان کے لبوں پر بھی ایک حرفِ انکار ٹھہرا ہوا ہے، ایسے میں لوگ کیوں نہ جون ایلیا کے شعر گنگنائیں، کیوں نہ لمحہء موجود کی کھِلی اُڑائیں، کیوں نہ اپنا اور آئینے کا تمسخر اُڑائیں، کیوں نہ اس بودوہست کے بندوبست پر مسکرائیں۔ جون بھائی فرماتے ہیں ’’ ہم جو باتیں جنوں میں بکتے ہیں...دیکھنا جاودانیاں ہونگی۔‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)