خوش آئند سالانہ ترقیاتی پروگرام

June 04, 2023

شدید مالی مشکلات کے باوجودوفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے خطیر رقم مختص کرنے کی تجویز یقینا بڑی خوش آئند ہے بشرطے کہ اس پر عمل درآمد ہوسکے۔ وزیرمنصوبہ بندی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی نے تقریباً 26کھرب 60ارب روپے کے قومی ترقیاتی منصوبے کی سفارش کی ہے جس میں 950ارب روپے کا وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام بھی شامل ہے تاکہ آئندہ مالی سال ملک کی اقتصادی ترقی کی شرح کو 3.5 فیصد تک لے جایا جا سکے جو رواں سال 0.3 فیصد کی پست ترین سطح پر آگئی ہے۔ تاہم پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگراں حکومتوں کی وجہ سے اس منصوبے میں تبدیلی کا امکان ہے کیونکہ یہ حکومتیں 120روز سے زیادہ مدت کے لیے رقم مختص نہیں کر سکتیں لہٰذا انتخابات کے بعد منتخب حکومتیں باقی مدت کیلئے رقوم مختص کریں گی۔بڑے معاشی اہداف اور ترقیاتی منصوبے کی باضابطہ منظوری قومی اقتصادی کونسل دے گی جوکہ میکرو اکنامک اور ترقیاتی پروگرام کیلئے ملک کا سب سے بڑا فورم ہے اور اس کی سربراہی وزیراعظم کرتے ہیں۔ وفاقی سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام کو نجی شعبے کی جانب سے 150 ارب روپے کی مالی معاونت فراہم کی جائے گی جس کیلئے وفاق نے 100ارب روپے مختص کیے ہیں تاکہ ممکنہ مالیاتی فرق کو پورا کیا جاسکے۔کل 26کھرب 60ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات میں وفاقی پروگرام کے 11کھرب روپے، 150 ارب روپے کی نجی فنانسنگ اور تقریباً 15 کھرب 60 ارب روپے کے صوبائی سالانہ ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگراں حکومتوں نے پہلی سہ ماہی (جولائی تا اکتوبر) کیلئے بالترتیب صرف 426ارب اور 268ارب کے صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تخمینے فراہم کیے ہیں۔سندھ اور بلوچستان اپنے متعلقہ سالانہ ترقیاتی پرواگرام کیلئے 617 ارب روپے اور 248ارب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سالانہ منصوبہ رابطہ کمیٹی کے مطابق پورے سال کے صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام 20کھرب تک پہنچ جائیں گے۔پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کا ایک اہم جزوارکان پارلیمان کی ترقیاتی اسکیموں کیلئے مزید 90ارب روپے مختص کرنا ہے۔ اس کیلئے رواں برس کے بجٹ میں 70ارب روپے مختص کیے گئے تھے، جسے بتدریج بڑھا کر 111ارب روپے کردیا گیا۔3.5فیصد جی ڈی پی کی شرح نمو خدمات کے شعبے میں 3.6فیصد، زراعت میں 3.5فیصد اور صنعت میں 3.4فیصد ترقی پر مبنی ہے۔برآمدات کا ہدف 30 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے جبکہ اس سال افراط زر کی اوسط شرح 29.2 فیصد سے کم ہو کر آئندہ برس تقریباً 21 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ملک کے شدید مالیاتی بحران میں مبتلا ہونے کے باوجود سالانہ ترقیاتی منصوبہ رابطہ کمیٹی کی یہ سفارشات حکومت کے عزم و حوصلے کی مظہر ہیں اور حوصلہ مند قومیں ہی مشکلات کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ وزیر منصوبہ بندی کا یہ موقف حقائق کے مطابق نظر آتا ہے کہ پچھلے دور حکومت میں ملک ہی نہیں پورے خطے کی معاشی کایا پلٹ کے ضامن سی پیک منصوبے کو لپیٹ نہ دیا گیا ہوتا،ترقیاتی پروگرام کا ہدف ماضی کی نسبت آدھا نہ کردیا گیا ہوتا اور نمائشی معاشی بہتری دکھانے کیلئے 80 ارب کی غیرضروری در آمدات کرکے توازن تجارت کو انتہا ئی حد تک بگاڑ نہ دیا گیا ہوتا تو قومی معیشت زبوں حالی سے دوچار نہ ہوتی۔ تاہم اب معاشی بحالی کیلئے ہر ممکن تدبیر لازم ہے۔اس میں سیاسی استحکام اہم ترین ہے کیونکہ اس کے بغیر معاشی سرگرمی اور سرمایہ کاری محال ہے لہٰذا حکومت اور اپوزیشن دونوں کو قومی بقا و سلامتی کی خاطر کسی نہ کسی شکل میں بلاتاخیر بات چیت کا راستہ اپنانا چاہیے۔