دشمن آسماں کیوں ہو

June 06, 2023

فقیروں کی بحث اس مفروضے پر نہیں ہے کہ عمران خان اچھا ہے یا برا ہے۔ فقیر صرف اتنا جانتے ہیں کہ ہم سب کچھ کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ کچھ برے ہوتے ہیں۔ ہم سب کچھ کچھ اچھے اور کچھ کچھ برے اس لئے ہوتے ہیں کہ ہم انسان ہوتے ہیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی انسان میں صرف اچھائیاں ہوں اور اس انسان میں خامی کا نام ونشان نہ ہو۔ اگر آپ انسان ہیں تو پھر آپ میں اچھائی بھی ہوگی اور برائی بھی ہوگی ۔ اگر آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ میں کوئی برائی نہیں ہے، اور آپ میں اچھائیاں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہیں تو پھر یقین جانئے کہ آپ انسان نہیں ہیں۔آپ کوئی آسمانی مخلوق ہیں دنیاوی حرص وہوس سے آزاد ہیں۔ مگر کیا کیاجائے کہ آپ ہماری طرح ایک روزمر جاتے ہیں۔ ہم نے سیانوں سے سنا ہے کہ آسمانی مخلوق مرتی نہیں۔ انسان مرجاتے ہیں۔ اس لئے ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ عمران خان اچھا آدمی ہے، یا کہ عمران خان برا آدمی ہے۔ ہم فقیر صرف اتنا جانتے ہیں کہ عمران خان کبھی بھی سیاستدان نہیں تھا ، اور تمام تر کوششوں کے باوجود اسے سیاست کی کیچڑ میں دھکیلنے والے عمران خان کو ایک معرکتہ الآرا سیاستدان بنانے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔ عمران خان لاجواب فاسٹ بالر تھا، عمران خان اپنے رویوں میںآج بھی فاسٹ بالر ہے، اور مرتے دم تک فاسٹ بالر رہے گا۔ فاسٹ بالر ہونا اور فاسٹ بالر رہنا ذہنی کیفیت کا نام ہے، وضع ہے، ڈھنگ ہے، انداز فکر ہے، طرز ِزندگی ہے۔ عمران خان سیاستدان نہیں تھا۔ دس مرتبہ جنم لینے کے باوجود عمران خان سیاستدان نہیں بن سکتا ۔

اب عمران خان جانیں، عمران خان کو سیاست میں لانے والے جانیں، اور عمران خان کو سیاست سے فارغ کرنے والے جانیں۔ فقیر آج تک اپنی چالیس برس پرانی بات پر قائم ہے کہ عمران خان کسی طور سیاستدان نہیں ہے۔ وہ جنونی فاسٹ بالر ہے۔ ایک بائونسر پھینکے گا۔ کپتان کے لاکھ سمجھانے کے باوجود باز نہیں آئے گا۔ چوتھی گیند زیادہ تیز اور زیادہ بائونس کرے گا ۔ پچھلے دور میں ویسٹ انڈیز کے زیادہ تر تیز بالر عمران خان جیسے ہوتے تھے۔ چھکا لگنے کے بعد وہ ہوش گنوا بیٹھتے تھے۔ فقیر ادب سے اپنی بات دہراتا ہے کہ دنیا کی کسی ترکیب سے آپ عمران خان کو سیاستدان نہیں بنا سکتے۔ جس نے بھی سوچا تھا، غلط سوچا تھا کہ عمران خان اپنی بے پناہ شہرت کے بل بوتے پرپاکستان کی سیاسی کشتی کو بھنور سے نکال سکتا ہے۔

اس وقت پاکستان میں بے چینی غیر متوقع نہیں ہے۔ سیاست میں چھکے لگتے ہیں، چوکے لگتے ہیں۔کامیاب صرف وہ ہوتے ہیں جو ہوش سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھتے۔ جس بیٹس مین نے آپ کو چھکا مارا ہے، وہ آپ کی اگلی گیند پر آئوٹ بھی ہوسکتا ہے۔ مگر یہ سب تب ممکن ہے جب آپ جوش کی بجائے ہوش سے کام لیتے ہیں۔ زندگی میں لچک ضروری ہوتی ہے۔ جو جھکتے نہیں وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔

پچھلے دنوں کے دنگے فسادوں کی خبریں پڑھ کر، سن کر اور دیکھ کر فقیر ڈر گئے ہیں۔ خوفزدہ ہوگئے ہیں۔اگر گنتی کے فسادی بغیر کسی روک ٹوک اور مزاحمت کے حساس ادارو ںمیں گھس کر توڑ پھوڑ اور غارت گری کرسکتے ہیں، توپھر ہم فقیروں کی حیثیت ہی کیا ہے؟ ہم فقیر معاشرے میں کیڑے مکوڑے سمجھے جاتے ہیں۔ ہماری خستہ حالی کی حفاظت کرنے کے لئے چوکیدار نہیں ہوتے۔ہمارے باڈی گارڈ نہیں ہوتے۔ ہماری اور ہمارے بچوں کی حفاظت پرکمانڈوزمامور نہیں ہوتے۔اگر فسادی فیصلہ کرلیں کہ وہ فقیروں کو تہس نہس کردیں گے، توپھر ان کو روکے گا کون؟ ان کے قہر سے ہمیں بچائے گا کون؟ حساس اداروں میں لگی ہوئی آگ بجھانے کے لئے فائر برگیڈ کی گاڑیاں اگر نہیں آسکتیں توپھر ہم فقیروں کے خستہ حال گھروں میں لگی ہوئی آگ بجھانے کون آئے گا؟ کور کمانڈر کے گھر جناح ہائوس میں لگی ہوئی آگ چار پانچ گھنٹے بھڑکتی رہی تھی۔ اس وقت آگ بجھانے والے فائر برگیڈ کے لوگ کیا کررہے تھے؟ تاش کے پتوں سے دل بہلا رہے تھے یا لوڈو کھیل رہے تھے؟ کور کمانڈر کا گھر ہم خاک نشینوں کے خستہ حال گھروں جیسا نہیں ہوتا۔سنا ہے کہ وہاں پرندہ پرنہیں مارسکتا، اگر دھاوا بولنے والے بغیر کسی روک ٹوک کے کور کمانڈر کے گھر کو تاراج کرسکتے ہیں، توپھر فقیروں کے خستہ حال گھروں کو ملیا میٹ کرنے میں فسادیوں کو رتی برابر ہچکچاہٹ نہیں ہوگی۔ اگر آپ اب بھی ہمیں تسلی دیتے ہیں، ہماری ڈھارس بندھاتے ہیں کہ آئندہ فسادیوں کو اس قدر چھوٹ نہیں دی جائے گی،توپھر میرے بھائی ہم کوچ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ 75 سال کے تجربے نے ہم فقیروں کو سکھایا ہے کہ دہشت گرد ہمیں تہس نہس کرنے کے لئے کسی سے اجازت نہیں لیتے۔ ان کی کارستانیوں کے بعد آپ سرکار فرماتے ہیں کہ اب کے دہشت گردوں کو دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سرکار آپ کا یہ جملہ سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں۔

ٹھوس سبب ہے ہمارے پاس کوچ کرجانے کا اور صحرا نوردی کا۔ فقیروں کو یاد نہیں پڑتا کہ 75 سالہ تاریخ میں کبھی بھی دہشت گردوں نے بغیر کسی مزاحمت کے اپنی کارروائی کرکے دکھائی ہو۔ حکومت وقت ان کو چیلنج کرتی رہی ہے۔ ان کے مذمو م عزائم کے سامنے حکومت آڑے آتی رہی ہے۔ اب کے، اس مرتبہ حکومت کہاں سوئی ہوئی تھی؟ دہشت گردوں نے کھل کر تخریب کاری کرکے دکھائی، مگر شہباز شریف صاحب کی ہر دلعزیز حکومت نے فسادیوں کو روکنے کے لئے ایک گولی نہیں چلائی۔ چوبیس کروڑ لوگوں کی حکومت اپنے حساس اداروں کی حفاظت نہ کرسکی۔ ایسی ناتواں حکومت کے سائے تلے رہتے ہوئے ڈرلگتا ہے۔