بحالی جمہوریت کی نئی تحریک؟

June 08, 2023

نوابزادہ نصراللہ خان حقے کے ہلکے ہلکے کش لگا رہے تھے اور ٹھہر ٹھہر کر مجھ سے باتیں کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست دان پر مشکل وقت آئے تو اسےسیاسی تنہائی سے بچنے کیلئے اپنے مخالفین کے ساتھ اتحاد بنانے سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ میں نے پوچھا کہ پاکستان میں پہلا سیاسی اتحاد کب بنا تھا؟ نوابزادہ صاحب نے اپنی ترکی ٹوپی اتار کر سائیڈٹیبل پر رکھی۔ ملازم کو آواز دیکر سرائیکی میں کہا کہ چائے لیکر آئو اور پھر اپنے سر پر ہاتھ پھیر کر بتایا کہ پہلا باقاعدہ سیاسی اتحاد 1953ء میں مشرقی پاکستان میں بنایا گیا جہاں حسین شہید سہروردی کی عوامی مسلم لیگ نے اے کے فضل الحق کی کرشک پراجا پارٹی، محمود علی کی گنا تنداری دل اور کچھ دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکمران مسلم لیگ کے خلاف اتحاد بنایا اور 1954ء کے صوبائی الیکشن میں مسلم لیگ کا صفایا کر دیا۔ جگتو فرنٹ نے 237میں سے 223نشستیں جیت لیں۔ اے کے فضل الحق مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے وہ بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دینا چاہتے تھے اور نیوی کا ہیڈکوارٹر مشرقی پاکستان منتقل کرنا چاہتے تھے لہٰذا انہیں غدار قرار دیکر برطرف کر دیا گیا۔ ایک سال کے اندر اندر اس غدار نے مسلم لیگ کے رہنما چودھری محمد علی سے اتحاد کر لیا۔ چودھری صاحب وزیر اعظم اور اے کے فضل الحق وفاقی وزیر داخلہ بن گئے۔ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہ چلی، گورنر جنرل سکندر مرزا نے مسلم لیگ میں توڑ پھوڑ کرا کے ایک نئی پارٹی بنائی جسے ری پبلکن پارٹی کا نام دیا گیا۔ ری پبلکن پارٹی نے عوامی مسلم لیگ سے اتحاد کر لیا اور یوں حسین شہید سہروردی وزیر اعظم اور ڈاکٹر خان صاحب مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ سیاسی سازشوں نے جمہوریت کو اتنا کمزور کر دیا کہ 1947ء سے 1957ء کے درمیان سات وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ نوابزادہ صاحب بتا رہے تھے کہ 1958ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تو سیاست دان کوئی بڑی مزاحمت نہ کر سکے کیونکہ وہ قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد سے مسلسل آپس میں لڑ رہے تھے۔ ایوب خان نے بڑے بڑے سیاست دانوں کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا اور کہا کہ جو سیاست سے دستبرداری کا اعلان کر دیگا اسے رہا کردیا جائے گا جو سیاست نہیں چھوڑے گا وہ جیل کی ہوا کھائے گا۔ میاں ممتاز دولتانہ، ایوب کھوڑو اور خان عبدالقیوم خان نے رضاکارانہ طور پر چھ سال کیلئے سیاست چھوڑ دی۔ حسین شہید سہروردی نے سیاست چھوڑنے سے انکار کیا تو جیل میں ڈال دیئے گئے۔ نوابزادہ صاحب نے حقے کا لمبا کش لگا کر بتایا کہ اس زمانے میں وہ بھی عوامی لیگ میں تھے اور ایوب خان کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے کی کوشش میں تھے۔ ایوب خان کے خلاف پہلا اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے بنا۔ پھر کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی بنائی گئی۔ پھر پیپلز ڈیموکریٹک موومنٹ بنائی گئی اور آخر میں ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی بنائی گئی جس میں نوابزادہ نصراللہ خان،شیخ مجیب الرحمان، جماعت اسلامی، مولانا مفتی محمود، خان عبدالولی خان اور دیگر جماعتیں شامل تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی اپوزیشن میں تھی لیکن وہ اس میں شامل نہ ہوئی البتہ اس نے ایوب خان کو ہٹا کر نئے انتخابات کے مطالبے کی حمایت کی۔ اس اتحاد نے اتنا دبائو ڈالا کہ ایک دن آرمی چیف جنرل یحییٰ خان نے اپنے باس ایوب خان سے استعفا لیکر خود اقتدار پر قبضہ کر لیا اور دعویٰ کیا کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرے گا۔ ریڈیو پر یحییٰ خان کی تقریر سے متاثر ہو کر نوابزادہ نصراللہ خان کے ایک پرانے دوست آغا شورش کاشمیری نے اپنے جریدے ہفت روزہ چٹان میں لکھا

اسلام کے خلاف ہیں جتنے نمک حرام

قہروغضب سے فوج کے بچتے رہیں تمام

زندہ رہیں گی عہد سلف کی روائتیں

یحییٰ نے ریڈیو پہ کہا ہے گزشتہ شام

جب جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں پاکستان دولخت ہو گیا تو پھر آغا شورش کاشمیری نے اپنی غلطی پر معافی مانگتے ہوئے لکھا ۔

تو نے اس ارضِ خداداد کو دولخت کیا

جو سیہ کار تھے سازش میں ترے ساتھ رہے

ان کا شیوہ تھا کہ فرزیں کو پیادہ پیٹے

ان کی خواہش تھی کہ شطرنج تیرے ہاتھ رہے

نوابزادہ صاحب کو اپنے دوست شورش کاشمیری کا کلام زبانی یادتھا،اس دوران چائے آگئی۔ انہوں نے حقہ چھوڑ دیا اور میز کی دراز سے ملتانی سوہن حلوہ نکال کر میرے سامنے رکھ دیا۔کہنے لگے یہ تو آپ کے والد کو بھی بہت پسند تھا۔ پھر یاد دلایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پہلے یو ڈی ایف کے نام سے اتحاد بنا جو ٹوٹ گیا۔پھر پی این اے بنایا جس نے تحریک نظام مصطفیٰ چلائی اور اسی تحریک کی آڑ میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔ جنرل ضیاء کو نکالنے کیلئے 1983ء میں ایم آر ڈی بنی جس میں پیپلز پارٹی، اے این پی، جے یو آئی سمیت کئی جماعتوں کو نوابزادہ صاحب نے اکٹھا کرلیا۔ایم آر ڈی کی تحریک پر جنرل ضیاء نے ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ کی۔ جنرل ضیاء الحق طیارےکے حادثے میں دنیا سے رخصت ہوئے تو ایم آر ڈی کی جماعتوں کے مقابلے پر اسلامی جمہوری اتحاد بنا دیاگیا۔یہ اتحاد بے نظیر بھٹو کو وزیر اعظم بننے سے نہ روک سکا لیکن بے نظیر صاحبہ کی حکومت کو 1990ء میں برطرف کر دیا گیا۔ انہوں نے سیاسی تنہائی سے نکلنے کیلئے پیپلز ڈیموکریٹک الائنس بنایا۔ 1992ء میں نوابزادہ صاحب نے نواز شریف حکومت کے خلاف این ڈی اے کے نام سے اتحاد بنایا۔ 1999ء میں نواز شریف حکومت برطرف ہو گئی تو پیپلز پارٹی والوں نے مٹھائیاں بانٹیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو جیل میں ڈال دیا گیا تو بیگم کلثوم نواز نے نوابزادہ صاحب سے امداد طلب کی۔ نوابزادہ صاحب نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں اختلافات کے باوجود ان جماعتوں کو اے آر ڈی میں اکٹھا کر دیا۔ اے آر ڈی بنتے ہی جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو سعودی عرب بھیج دیا۔ نواز شریف کے بیرون ملک چلے جانے کے بعد 2002ء میں انتخابات ہوئے اور آصف علی زرداری نے جیل سے نوابزادہ صاحب کے ساتھ رابطہ کرکے کہا کہ کسی نہ کسی طریقے سے مسلم لیگ (ق) کے وزیر اعظم کا راستہ روکیں۔ نوابزادہ صاحب نے کوشش تو بہت کی لیکن کامیاب نہ ہوئے اور انہی دنوں ایک نشست میں انہوں نے مجھے سیاسی اتحادوں کی تاریخ سے آگاہ کیا۔2003ء میں انکی وفات کے بعد اے پی ڈی ایم بنی تھی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف شامل تھیں۔ 2020ء میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پی ڈی ایم بنی جس میں سے پیپلز پارٹی اور اے این پی نکل گئیں۔ اب یہ دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کی اتحادی ہیں آج تحریک انصاف مشکل میں ہے اور مجھے نوابزادہ صاحب کی وہ باتیں یاد آ رہی ہیں کہ سیاست دان مشکل میں ہو تو اسے سیاسی اتحاد بنانا چاہئے لیکن تحریک انصاف کو فی الحال کوئی اتحادی میسر نہیں۔ دوسری طرف حکمران اتحاد میں ٹوٹ پھوٹ تیز ہو رہی ہے۔ نوابزادہ صاحب کا ایک برخوردار پیپلز پارٹی اور دوسرا تحریک انصاف میں ہے۔ سیاسی ٹوٹ پھوٹ ختم نہ ہوئی تو حالات اتنے بگڑیں گے کہ آج کی حکمران جماعتیں کل کو تحریک انصاف کے ساتھ مل کر بحالی جمہوریت کی نئی تحریک چلا رہی ہوں گی۔