شجر کاری: صدقہ جاریہ، ایک باعثِ اجر و ثواب عمل

June 09, 2023

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کائنات کا حُسن وجمال اس کی قدرتی و فطری آب و ہوا میں ہے اور انسان کے فطرت سے سرِموانحراف کی صورت بھی زمین و آسمان میں فساد و بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت ہی کا ایک مظہر ہے کہ جہاں انسانوں اور دوسرے جان داروں کو اور بہت سی نعمتیں دی گئی ہیں، وہیں اُن کو سازگار ماحول بھی عطا کیا گیا ہے۔ کئی ایسی چیزیں پیدا کی گئی ہیں، جو کثافتوں کو جذب کرلیتی ہیں اور ماحول کو مختلف النّوع آلودگیوں سے بچاتی ہیں۔ لیکن انسانی زندگی اور انسان کو مطلوب جان دار و بے جان وسائل کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ انسان خود بھی ماحولیات کے تحفّظ کا اہتمام کرے اور ایسے امور سے بچے، جن سے فضا، زمین یا پانی وغیرہ کے آلودہ ہونے کے امکانات ہوں۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ جنگلات کی بے تحاشا کٹائی، دریاؤں میں فضلات کے بہاؤ، پُرشور سواریوں اور مشینوں کے استعمال اور اسی طرح کی مختلف سرگرمیوں ہی کی وجہ سے ماحولیات میں عدم توازن پیدا ہورہا ہے۔ آلودگی بڑھ رہی ہے اور طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔

یہ قدرت کا عجیب نظام ہے کہ اس کائنات میں جہاں ماحول کو آلودہ کرنے والے غیر قدرتی عوامل پائے جاتے ہیں، وہیں ربِ کائنات نے ماحولیاتی کثافتوں کو جذب کرنے والے اہم ترین ذرائع بھی پیدا کر رکھے ہیں۔ زمین میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ساری غلاظتوں کو اپنے سینے میں دفن کرلیتی ہے۔ ذرا سوچیں، مرنے والے انسان اور دیگر جانور اگر زمین میں دفن نہ کیے جائیں، تو سارا ماحول کس قدر متعفّن ہوکر رہ جائے۔ اسی طرح کوڑا کرکٹ کی شکل میں موجود مَنوں ٹنوں غلاظت بھی زمین ہی اپنے سینے میں اتار کر تحلیل کردیتی ہے۔

پھر سمندر کا حیرت انگیز نظام بھی ماحولیاتی آلودگی کے کنٹرول میں غیر معمولی کردارادا کرتا ہے۔ ہر دن سمندر میں بے شمار حیوانات مرتے ہیں، کارخانوں کے آلودہ پانی کا رُخ بھی سمندروں کی طرف موڑا جاتا ہے اور سمندروں کا کھارا پانی ان ساری چیزوں کو تحلیل کرکے ماحولیاتی تحفّظ کا سبب بنتا ہے، جو اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن، ان سارے قدرتی ذرائع کے باوجود ماحولیاتی کثافت اس وقت پوری دنیا کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے، جدید طرزِ زندگی کے سبب ہر گزرتے دن کے ساتھ آلودگی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرنے والے دینِ اسلام نے جہاں موجودہ دَور کے دیگر مسائل کا حل پیش کیا ہے، وہیں اس کی تعلیمات میں ماحولیاتی آلودگی کا حل بھی موجود ہے۔ محسنِ انسانیت، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے شجر کاری کو صدقہ قرار دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’جو مسلمان دَرخت لگائے یا فَصل بوئے، پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپایا کھائے، تو وہ اس کی طرف سے صدقہ شُمار ہوگا۔ (صحیح بخاری)۔شجر کاری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس حوالے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہو اور وہ اُسے لگا سکتا ہو، تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔‘‘ (مسندِ احمد)۔

ایک اور حدیث میںہے، ’’جو کوئی درخت لگائے، پھر اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہے، یہاں تک کہ وہ درخت پھل دینے لگے، وہ اس کے لیے اللہ کے یہاں صدقہ کا سبب ہوگا۔‘‘ (مسند احمد)۔ عرب میں بالعموم ببول یا بیری کے درخت ہوا کرتے تھے، نبی کریمﷺ نے بیری کے درخت کے بارے میں فرمایا، ’’جو بیری کا درخت کاٹے گا، اُسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ جہنّم میں ڈالےگا۔‘‘ (سنن ابو داؤد)۔آپ ﷺ نے جہاں عام دنوں میں درخت کاٹنے کی ممانعت فرمائی، وہاں دورانِ جنگ بھی نہروں کو آلودہ کرنے اور درختوں کو کاٹنے کی ممانعت فرما کر نہ صرف آبی ذخائر کی حفاظت کی تعلیم دی بلکہ ماحول کو آلودہ ہونے سے بھی بچایا۔

سیّدنا علیؓ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں، ’’حضور نبی اکرم ﷺجب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے، تو یوں ہدایات دیتے، ’’کسی بچّے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا، درختوں کو نہ کاٹنا۔‘‘ (بیہقی)۔ حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’جو مسلمان درخت لگاتاہے، پھر اس میں سے جتنا حصّہ کھالیا جائے، وہ درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے، اور جو اس میں سے چوری کرلیا جائے، وہ بھی صدقہ ہوجاتا ہے۔

یعنی اس پربھی مالک کو صدقے کا ثواب ملتا ہے اور جتنا حصّہ اس میں سے چرند کھالیتے ہیں، وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوجاتاہے، اور جتنا حصّہ اس میں سے پرند کھالیتے ہیں، وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوجاتاہے، (غرض یہ کہ) جو کوئی اس درخت میں سے کچھ بھی پھل وغیرہ لے کر کم کردیتا ہے، تو وہ اس درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہوجاتاہے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ درختوں کی اسی افادیت کے پیشِ نظر آپﷺ نے ایسے درخت وغیرہ جن سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہو، کاٹنے یا برباد کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔

آج پوری دنیا میں ماحولیات کے حوالے سے جتنے بھی مسائل ہیں، قرآن و حدیث میں اُن سب کا حل موجود ہے۔ ضرورت صرف اس امَر کی ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں میں درختوں کی اہمیت و افادیت سے متعلق شعور بیدار کیاجائے، تو آئیں، ہم سب مل کر کوشش کریں، اپنے اپنے حصّے کا چراغ روشن کریں ور اپنی اپنی ذمّے داری پوری کریں تاکہ اپنے مُلک اور دنیا کو محفوظ بناسکیں۔