• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے وفاقی بجٹ پر تبصرہ تو اس کے مجموعی تجزیے میں ہی ممکن ہے مگر اس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشنوں کے علاوہ مزدوروں کی کم سے کم جو اجرت مقرر کی گئی ہے وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابلے میں توقعات سے کہیں کم ہے ۔

 بجٹ پر پارلیمنٹ میں ابھی بحث ہونی ہے۔مگر توقع کی جا سکتی ہے کہ مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوں کی اشک شوئی کیلئے حکومت کچھ مثبت اقدامات ضرور کرے گی اور کرنے بھی چاہئیں۔ مگر ملک کے ابتر معاشی حالات کے تناظر میں اس کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ 

ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ اور اندرونی بحرانوں کی وجہ سے ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے جسے روکنے کیلئے حکومت حتی المقدور کوششیں کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کرنے کے باوجود اس کی جانب سے امداد ملنے کی توقعات بھی کم ہی ہیں۔

 ایسے میں کم آمدنی والے طبقات کیلئے مشکلات ختم ہونے کی بجائے بڑھتی نظر آ رہی ہیں۔ غریب تو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے پس رہا ہے۔ مگر متوسط طبقہ بھی رفتہ رفتہ ضروریات زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بوجھ تلے دب کر اسی لکیر کی جانب گامزن ہے۔ اس صورتحال میں سرکاری ملازمین کی انجمنوں اور مزدوروں کی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ تنخواہوں اور اجرتوں میں سو سے تین سو فیصد تک اضافہ کیا جائے۔ 

ادھر وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہو سکا تو ہم کمر کس لیں گے یعنی اپنے وسائل سے مالی بحران کا مقابلہ کریں گے بے شک ایک خوددار قوم ہونے کے ناطے ایسا ہی کرنا چاہئے مگر اس کیلئے مزید ٹیکس لگانا پڑیں گے جن کا زیادہ بوجھ پسماندہ طبقے پر پڑے گا جسے پہلے ہی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اسلئے پالیسی سازوں کو ان طبقات کے مفاد کو سامنے رکھ کر ہی فیصلے کرنا پڑیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان کی توقعات پر کہاں تک پورا اترتی ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین