ظالمو! قاضی آچکا ہے

September 21, 2023

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور کا آغاز ہوچکا ہے،اپنی اہلیہ کے ہمراہ حلف لےکر انہوں نے ایک نئی روایت ڈالی اور پھر پہلے ہی دن فل کورٹ تشکیل اور سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا حکم دے کر تاریخ رقم کر ڈالی ۔تجسس کی فضامگر اب تک برقرار ہے ۔یہ سوال بدستور اپنی جگہ موجودہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کادور کیساہوگا؟تمام تر رکاوٹوں اور مزاحمت کے باوجود وہ جس طرح شان و شوکت سےقاضی القضاۃ کا منصب سنبھالنے میں کامیاب ہوئے ،اسے دیکھ کر یہ شعر نوک قلم پر مچل رہا ہے:

شیخ آنے کو میخانے میں مسلماں آیا

کاش میخانے سے نکلے تو مسلماں نکلے

کسی بھی قوم یا معاشرے کے ذہنی وفکری انحطاط اور زوال کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ خود اپنی حالت بدلنے کے بجائے کسی مسیحا یا نجات دہندہ کا انتظار کیا جائے۔ امریکی مصنف اور کالم نگار، فرینکلن پی ایڈمز نے کہا تھا،’’اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایسے سیاستدانوں کی بہتات ہے جنہیں اپنے تجربے کی بنیاد پر ایمان کی حد تک یقین ہے کہ تمام لوگوں کو ہمیشہ کیلئے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔‘‘وطنِ عزیز میں مگربے وقوف بنانے کے مشغلے پر محض سیاستدانوں کی اجارہ داری نہیں بلکہ جج ہوں یا جرنیل ،حسب توفیق سب مسیحا اور نجات دہندہ بن کر قوم سے شغل لگانے اور دل لگی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم اتنے سادہ ہیں کہ ہراُبھرتے سورج کی پوجا کرنے لگتے ہیں۔ جرمن مصنف اور ڈرامہ نگار برٹالٹ بریخت (Bertolt Brecht)کے شہرہ آفاق ڈرامہ ’’گلیلیو کی داستان ‘‘کا ایک مشہور جملہ یاد آتا ہے ’’بدقسمت ہے وہ سرزمین جو ہیرو کی تلاش میں ہو‘‘۔ہم پاکستانیوں سے بڑھ کر کون بدقسمت ہوگا جو برسہا برس سے ہیرو کی راہ تک رہے ہیں ۔کبھی کسی سپہ سالار سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں تو کبھی مسند انصاف پر براجمان قاضی القضاۃ کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں۔

پاکستان کے سیاسی تھیٹر میں اُکتائے تماشائیوں کی حالتِ زار دیکھتا ہوں تو مجھے غیر روایت پسند تحریک کے دوران لکھا گیا 20ویں صدی کا مقبول ترین ڈرامہ ’’ویٹنگ فار گڈوٹ (Waiting for Godot) یاد آتا ہے ۔ سیموئل بیکٹ زندہ ہوتا تو یقیناً پکار اٹھتا، ظالمو!گڈوٹ آچکا ہے ۔ فرانسیسی زبان میں لکھے اس ڈرامے کا ترجمہ کئی زبانوں میں کیا جا چکا ہے اور شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں یہ ڈرامہ پیش نہ کیا جاتا ہو۔ یوں تو اس ڈرامے کے پانچ کردار ہیں مگر مرکزِ نگاہ محض دو لوگ ہی ہیں، جن میں سے ایک ولادی میر ہے جبکہ دوسرے کا نام ایسٹروجن ہے۔ ڈرامہ دیکھ کر لگتا ہے پاکستان کے سیاسی حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں لوگوں کی یادداشت کمزور ہے، بہت جلدی بھول جانے کی وبا عام ہے، تاریخ مسلسل دہرائے جانے سے گاہے یوں لگتا ہے جیسے ہم دائروں کے سفر پر گامزن ہیں اور چند برس بعد پھر سے لوٹ کر وہاں آ جاتے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا، اسی طرح سیموئل بیکٹ کے اس ڈرامے میں بھی تکرار بہت ہے۔ ایک ہی بات اتنی مرتبہ دہرائی جاتی ہے کہ بوریت محسوس ہونے لگتی ہے۔ان کرداروں کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے، گڈوٹ کا انتظار کرنا۔ انہیں معلوم نہیں کہ گڈوٹ کون ہے؟ لیکن پھر بھی اس کا انتظار کرتے ہیں اور جیتے جی مرتے ہیں۔ اس بے مقصد انتظار کی کوفت سے فرار پانے کیلئے وہ کئی جتن کرتے ہیں، بائبل کا قصہ چھیڑتے ہیں، لایعنی موضوعات پر بے معنی بحث کرتے ہیں۔ ایک لڑکا آتا ہے جو بتاتا ہے کہ اسے مسٹر گڈوٹ نے بھیجا ہے، وہ شاید آج تو نہ آ سکیں مگر وہ کل ضرور تشریف لائیں گے۔ ڈرامے کے دوسرے حصے میں اگلے دن کا آغاز ہوتا ہے تو وہ گزشتہ روز کی سب باتیں بھول چکے ہوتے ہیں مگر یہ بات یاد رہتی ہے کہ انہیں گڈوٹ کا انتظار ہے۔ وہ لڑکا دوبارہ آتا ہے تو اسے بھی گزشتہ روز کی ملاقات یاد نہیں ہوتی اور کہتا ہے کہ ان دونوں سے وہ پہلی بار ملا ہے، تاہم یہ لڑکا خود کو گڈوٹ کے پیغام رساں کے طور پر ہی متعارف کرواتا اور کہتا ہے کہ مسٹر گڈوٹ آج بھی نہیں آ سکیں گے لیکن وہ کل ضرور تشریف لائیں گے۔ ولادی میر اور ایسٹروجن تنگ آکر ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ خود کشی کر لیں۔ وہ دونوں جس درخت کے نیچے بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں اسی سے لٹک جانے کا سوچتے ہیں۔ ایسٹروجن اپنی بیلٹ نکالتا ہے اور اسے پھندہ بنا کر لٹکنے کی کوشش کرتا ہے۔ بیلٹ ٹوٹ جانے کے باعث خودکشی کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی۔ وہ درخت سے لٹکنے کا فیصلہ تب تک ملتوی کر دیتے ہیں جب تک ان کا مسیحا گڈوٹ آ نہیں جاتا۔ ڈرامہ ختم ہو جاتا ہے لیکن انتظار ختم نہیں ہوتا اور گڈوٹ کبھی نہیں آتا۔

گڈوٹ آخر ہے کون؟ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سیموئل بیکٹ نے فرانس میں مستعمل بازاری اصطلاح ’’بوٹ‘‘ مستعار لے کر ’’گڈوٹ‘‘ کا کردار تخلیق کیا۔ بیشتر ناقدین اس سے گاڈ یعنی خدا مُراد لیتے ہیں مگر سیموئل بیکٹ ان میں سے کسی تصور کی تائید نہیں کرتے۔ جب مصنف سے سوال کیا گیا تو اس نے کہا ، اگر معلوم ہوتا کہ گڈوٹ کون ہے تو وہ اسے اسٹیج پر نہ لے آتا؟ بہرحال اس حد تک سب متفق ہیں کہ گڈوٹ کوئی مسیحا یا نجات دہندہ ہے جس کا انتظار کیا جاتا ہے اور وہ نہیں آتا۔ ہم پاکستانی بھی برسہا برس سے کسی مسیحا ،نجات دہندہ یا ہیرو کی تلاش میں ہیں۔ کیا وہ ہیرو قاضی فائز عیسیٰ کی شکل میں جلوہ افروز ہو چکا؟