قطب شمالی اور قطب جنوبی ہماری زمین کی دو انتہائیں ہیں اور جب بُعدِ عظیم کی مثال دینا ہو تو قطبین کے فاصلے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف اگر اسی کُرہِ ارض کو کہکشاں کے نقشے میں دیکھا جائے تو ایک نقطہ رہ جاتا ہے جسے ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اور یہ تو ہم جانتے ہیں کہ نقطوں کے قطبین نہیں ہوتے، نہ کوئی نارتھ پول نہ ساؤتھ پول۔ یعنی نظر اور نظارے کا درمیانی فاصلہ سارا منظر ہی بدل دیتا ہے۔
بالکل اسی طرح پاکستان کو دور سے دیکھیں تو ایک دھندلا سا نقطہ ہی نظر آتا ہے، فوج، عدالت، سیاست، عوام، سب ایک نقطے میں گم ہو جاتے ہیں، نہ کوئی ساؤتھ پول نہ نارتھ پول، نہ میاں صاحب نہ خان صاحب، نہ باجوہ صاحب نہ حافظ صاحب، بس ایک نقطہ سا رہ جاتا ہے، صبح شام نوع بہ نوع تازیانے سہتے عوام، مگرمچھوں کے جبڑوں میں جکڑے ہوئے وسائل، لاقانونیت، بد امنی، انتہا پسندی، جہالت اور بیماری اور باقی سب زیبِ داستاں۔
تین ماہ امریکہ میں قیام کے بعد ہمیں بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہونے لگا تھا اور خیال تھا کہ یہاں رہنے والے اکثر پاکستانیوں کے احساسات بھی کچھ ایسے ہی ہوں گے، لیکن حال ہی میں پاکستانیوں کی کچھ منڈلیوں تک رسائی ہوئی تو اندازہ ہوا کہ ہمارا خیال سراسر باطل تھا۔ درجنوں لوگ نظر آئے جو صبح شام دوربین سے پاکستان نامی نقطے کو گھورتے رہتے ہیں۔ ان کےلئے یہاں بیٹھ کر بھی پاکستان اسی طرح منقسم ہےجیسا پاکستان میں رہنے والوں کے لئے ہے، یعنی نواز شریف نواز شریف ہے اور عمران خان عمران خان، 'چور ڈاکو، کی گردان بھی چلتی رہتی ہے اور 'گھڑی چور،پر تبرے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔
اور یاد رہے کہ ان سب محفلوں تک ہماری رسائی کی کنجی ہیں حضرت انور اقبال، جو کہ’صدیوں‘سے یہیں رہتے ہیں، ڈان اخبار کے بیورو چیف ہیں، یہاں ہر کسی کو جانتے ہیں اور سب انہیں جانتے ہیں۔ بقول میر صاحب’’ہم بھی خوباں کو جانتے ہیں میر....وے بھی ہم کو مگر خوب جانتے ہیں‘‘۔ سو، انور صاحب اکثر ہمیں کسی سیاسی اڈے کی سیر کراتے ہیں جہاں ہر قماش کا پاکستانی اور ہر سطح کی گفتگو میسر آتی ہے۔ پچھلے ہفتے ایک ایسی ہی منڈلی میں پی ٹی آئی امریکہ کے کرتا دھرتا اصحاب سے ملاقات ہوئی۔ امریکہ میں پارٹی صدر کھٹانہ صاحب فرمانے لگے کہ’’ہم ادارے کے خلاف نہیں ہیں، ادارے اور افراد میں فرق ہوتا ہے۔‘‘ ہم اس محتاط فقرے کا مطلب اچھی طرح سمجھتے ہیں، کیوں کہ ہم یہ جملہ ستر کی دہائی سے سن رہے ہیں، پہلے پیپلز پارٹی والوں سے پھر نون لیگ والوں سے۔ بہرحال، اس گروہ کے تحرک کی داد دینا پڑے گی، کبھی پاکستان ایمبیسی کے سامنے مظاہرہ کرتے ہیں کبھی وائٹ ہاؤس کے سامنے نعرہ زن ہوتے ہیں، فنڈز وافر ہیں اور جوش فراواں، کبھی کبھی تو کوئی جوشیلا کارکن ریاست اور سیاست کا فرق بھی فراموش کردیتا ہے۔ پارٹی کے سابق صدر جونی بشیر بٹ فرماتے ہیں کہ ہم اداروں کے خلاف نعروں سے روکتے ہیں، ہم تو صرف انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف متحرک ہیں اور عمران خان اور دوسرے پارٹی لیڈرز کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
پچھلے ہفتے وائٹ ہاؤس کے سامنے پی ٹی آئی مظاہرے کا قصہ بھی سن لیجئے۔ اس جلسے کے لئے پی ٹی آئی کے دوست کہیں سےسابق سینیٹر اور رکن کانگریس لیری پریسلر کو پکڑ لائے، ان صاحب کی وجہ شہرت پاکستانیوں کے لئے پریسلر امینڈمینٹ کی نسبت سے ہے، جس قانون کے باعث 1985میں پاکستان کی فوجی و معاشی امداد پر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ اب پریسلر صاحب 81سال کے ہو چکے ہیں اور سنجیدہ سیاست سے ریٹائر ہو چکے ہیں، جب کہ پی ٹی آئی نے انہیں اپنے جلسے میں کلیدی خطاب کے لئے مدعو کیا۔ پریسلر صاحب نے تین جملوں پر مشتمل انتہائی 'پرمغزخطاب کیا۔ فرماتے ہیں کہ انسانی حقوق دنیا کے ہر ملک کے لئے اہم ہیں، پاکستان کے لئے بھی، اور پھر انہوں نے پرجوش انداز میں جلسہ گاہ میں نعرہ لگایا (PTIکے دوست سمجھے کہ’ 'عمران خان کو رہا کرو‘ ٹائپ کا نعرہ لگوایا جائے گا، مگر پریسلر صاحب نے عالمِ وارفتگی میں نعرہ لگایا’’ہپ ہپ ہرے‘‘ مجمع نے بھی پرجوش جواب دیا ’’ہپ ہپ ہرے‘‘۔جس کے ساتھ ہی جلسہ تمام ہوا۔
ان بیٹھکوں میں ایک جملہ کثرت سے سننے میں آتا ہے، 'ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔کچھ پی ٹی آئی کے دوست یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’کل رات پاکستان میں میرے گھر میں چھاپا پڑا اور دھمکیاں دی گئیں‘‘۔ پھر مسکراتے ہوئے کہتے ہیں’’ہم کسی سے نہیں ڈرتے‘‘۔بہرحال ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ان منڈلیوں کی اکثریت میں ایک خوف پایا جاتا ہے، خاص طور پر وہ دوست جن کا پاکستان آنا جانا رہتا ہے ۔ ان محفلوں میں اگر کوئی اجنبی آ جائے تو زبانیں محتاط ہو جاتی ہیں۔ کسی محفل میں ایک صاحب اٹھ کر گئے تو دبی دبی آواز میں ہمیں آگاہ کیا گیا کہ’’یہ جاسوس ہے، پریمیم انٹیلیجنس ایجنسی کے لئے کام کرتا ہے۔‘‘قصہ مختصر، یہ سب دوست پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، ان پر پیار آتا ہے، ان کے کچھ طریقوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی نیت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ کل ایک ایسی ہی مجلس سے واپسی پر علامہ انور اقبال فرمانے لگے کہ یہاں ہر ملک کے تارکین اکٹھے ہو کر اپنے ملک کے مفاد کے لئے کام کرتے ہیں، صرف پاکستان اس معاملے میں ایک استثنا ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ان منڈلیوں کی ہما ہمی سے دور ہوتے ہی ہمارا پاکستان تیزی سے دوبارہ ایک نقطے میں سمٹنے لگتا ہے، عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری، سب گڈ مڈ ہونے لگتے ہیں، ادارے اداروں میں ضم ہو جاتے ہیں، نہ نارتھ پول رہتا ہے نہ ساؤتھ پول، ایک دھندلا سا نقطہ رہ جاتا ہے، لرزتا ہوا، ہانپتا ہوا نقطہ۔