یہ بات ہے2010-11ء کی ۔میں ایک قومی اخبار کا مدیر تھا ۔محی الدین وانی پنجاب حکومت کے سیکریٹری اطلاعات تھے تو سرکاری اشتہارات کے حوالے سے ان سے تکرار معمول کا حصہ ہوا کرتی تھی۔ایک روز معلوم ہوا کہ پی ایم ایس آفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر رائے منظور ناصر کو بعض دیگر عہدیداروں کے ہمراہ گرفتار کرلیا گیا ہے ۔میں نے محی الدین وانی سے استفسار کیا تو انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ریاست سے ٹکرانے والوں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے۔دراصل یہ پنجاب سے مقابلے کا امتحان پاس کرکے افسر بھرتی ہونے والوں کی ڈی ایم جی گروپ کے خلاف بغاوت تھی ۔اس جھگڑے کی تفصیل میں جائیں گے تو ہم اصل موضوع سے ہٹ جائیں گے اس لئے آگے بڑھتے ہیں ۔یہ دونوں سول سرونٹ جو تب مخالف سمت میں کھڑے تھے،میرے مشاہدے کے مطابق بہترین اور فرض شناس افسر ہیں۔بالعموم یہ کہا جاتا ہے کہ بدعنوانی اور نااہلی کی بنیادوں پراستوار افسر شاہی کے اس نظام کوبدلنا کسی ایک شخص کے بس کی بات نہیں مگر ان دونوں نے ثابت کیا ہے کہ اپنے حصے کا چراغ جلا کر اندھیروں کو کم کیا جاسکتا ہے۔
آپ محی الدین وانی کی مثال لے لیں ۔23ویں کامن کورس کے ذریعے سول سروس میں آنے والے محی الدین وانی کئی اہم عہدوں پر تعینات رہے ۔انہوں نے ایڈیشنل سیکریٹری ایجوکیشن کے طور پر کام کیا،جب نوازشریف وزیراعظم تھے تو ان کے پریس سیکریٹری اور میڈیا کوآرڈینٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں،بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے ڈائریکٹر جنرل بنائے گئے اور اب چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ انہیں وزیراعظم شہبازشریف نے27اپریل 2022ء کو اس منصب پر تعینات کیا۔گلگت بلتستان میں کسی بھی عہدے پر تعینات ہونے کو خوش قسمتی سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہاں معمول سے ہٹ کر مراعات ملتی ہیں۔مثال کے طور پر سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد جن جج صاحبان کو گلگت بلتستان کا چیف جسٹس بنایا جاتا ہے ،وہ نہ صرف تین سال میں کروڑ پتی ہوجاتے ہیں بلکہ تاحیات پروٹوکول ،پنشن اور مراعات کے بھی حقدار سمجھے جاتے ہیں۔جسٹس (ر)رانا شمیم جن کے مبینہ بیان حلفی نے ہلچل مچادی تھی ،انہیں اگست 2015ء میں 65سال کی عمر میں چیف جسٹس گلگت بلتستان بنایا گیا،انہوں نے نہ صرف 6کروڑ 73لاکھ روپے تنخواہ وصول کی بلکہ ریٹائرمنٹ پر 2700سی سی گاڑی ،ڈرائیور سمیت دیگر خدمت گار اور پنشن کے بھی حقدار ٹھہرے۔اس طرح کی پرکشش مراعات چیف سیکریٹری کے لئے بھی مختص ہیں۔سبکدوش ہونے والے چیف سیکریٹری تاحیات پانچ نوعیت کی مراعات کے حقدار قرار پاتے ہیں۔وہ ہرقسم کی سرکاری رہائشگاہوں جیسا کہ گورنمنٹ ہاؤس، ریسٹ ہاؤس ،سرکٹ ہاؤس میں مفت رہائش اختیار کرسکتے ہیں۔ہر وہ سول سرونٹ جو ایک بار چیف سیکریٹری گلگت بلتستان بن گیا ،اسے زندگی بھر کے لئے ایک ڈرائیور ، گن مین اور اردلی کی خدمات مہیا کی جاتی ہیں۔اسلام آباد ،اسکردو اور گلگت ایئر پورٹ پر حکومت کی طرف سے وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔اسی طرح ان سہولتوں ،آسائشات اور مراعات کی ایک طویل فہرست ہے ۔محی الدین وانی نے چیف سیکریٹری بنتے ہی سب سے پہلے گلگت بلتستان کے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کو مراسلہ ارسال کرکے باضابطہ طور پر آگاہ کیا کہ وہ کسی قسم کی تاحیات مراعات نہیں لیں گے۔
محی الدین وانی کی اہلیہ سارہ سعید نہ صرف ان کی کورس میٹ ہیں بلکہ 23ویں کامن کی ٹاپر بھی ہیں ۔پرائم منسٹر آفس میں اسپیشل سیکریٹری کے طور پر تعینات سارہ سعید نے گزشتہ برس تب منفرد اعزاز اپنے نام کیا جب انہیں 22ویں گریڈ میں ترقی دی گئی اوروہ اس گریڈ میں ترقی حاصل کرنے والی کم عمر ترین سول سرونٹ بن گئیں۔محی الدین وانی کے چھوٹے بھائی معین الدین وانی جن کا تعلق 27ویں کامن سے ہے ،وہ کلیکٹر پشاور کے طور پر تعینات تھے اور آج کل راولپنڈی میں FBRکے ڈائریکٹر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ان کی ہمشیرہ عائشہ وانی بھی سول سرونٹ ہیں اور ان کا تعلق 28ویں کامن سے ہے۔
بطور چیف سیکریٹری گلگت بلتستان ،محی الدین وانی نے بہت سے قابل تعریف کام کئے ہیں مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہاں تمام سرکاری گاڑیوں پر جلی حروف میں لکھوا دیا گیا ہے کہ ’’یہ گاڑی GBکی عوامی ملکیت ہے‘‘۔ اب کوئی بھی سرکاری گاڑی ذاتی مشاغل ومعمولات کے لئے استعمال ہوگی تو فوراً نشاندہی ہو جائے گی۔یقینا ًاس سے یہ مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہوگا مگر بڑی حد تک بہتری کی توقع ضرور کی جاسکتی ہے۔اس کی مثال ایسے ہے جیسے کہیں یہ لکھوادیا جاتا ہے کہ پارکنگ منع ہے ۔بعض ناہنجار اس بورڈ کے نیچے گاڑی کھڑی کرجاتے ہیں مگر لوگوں کی اکثریت ایسا کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتی ہے۔میرا خیال ہے کہ وفاق ،چاروں صوبائی حکومتوں اور آزادکشمیر میںاس فیصلے کی تقلید کی جائے اور تمام سرکاری گاڑیوں پر لکھوادیا جائے کہ یہ گاڑیاں ٹیکس گزاروں کی ملکیت ہیں۔
رائے منظور ناصرجن کا شروع میں ذکر کیا،وہ بھی جہاں گئے داستاں چھوڑ آئے۔مارچ2011ء میں گرفتاری کے بعد ضمانت تو ہوگئی مگر وہ کم ازکم 8مرتبہ معطل ہوئے،طویل عرصہ زیر عتاب رہے ،آخر کار انہیں پوسٹنگ ملی ،ڈی سی تعینات ہوئے ،پنجاب کوآپریٹو بورڈ فار لکویڈیشن کے سیکریٹری رہے ،پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے سربراہ کے طور پر کام کیا ،پنجاب کے ڈی جی اینٹی کرپشن بنائے گئے اور اب خاتم النبینﷺ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں ۔انہوں نے سیرت النبی ﷺ پر ایک زبردست کتاب لکھی ہے ۔اور قابل ذکر بات یہ ہے اس کتاب کی بنیاد پر انہوں نے اکتوبر کے آخر میں سیرت رسول ﷺ پر ایک کوئز مقابلہ کروانے کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے اس کارخیر کے لئے چندہ لینے کے بجائے اپنی والدہ کے زیور بیچ کر 50لاکھ روپے کی انعامی رقم مقرر کی ہے۔پہلا انعام 20لاکھ روپے رکھا گیا ہے ۔اگر آپ اس مقابلے میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو اس نمبر 03441182211پر رابطہ کرکے اپنا نام درج کرواسکتے ہیں۔