5 شعبوں میں میثاق معیشت

October 02, 2023

ورلڈ بینک نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور پالیسی میکرز سے کہا ہے کہ وہ میثاق معیشت کے بجائے ملک کی بیمار معیشت ٹھیک کرنے کیلئے صرف 5 بڑے شعبوں میں اصلاحات پر اتفاق رائے پیدا کرلیں تو ملکی مفاد میں ایک بڑا کارنامہ ہوگا جس میں ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس پر استثنیٰ کا خاتمہ، سادہ انکم ٹیکس نظام کا نفاذ، رئیل اسٹیٹ اور زراعت کی آمدنی پر ٹیکس شامل ہیں۔ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری بڑھ کر ریکارڈ 12.2فیصد ہوگئی ہے، سرکاری شعبہ غیر موثر اور نااہل ہے اور ٹیکس نظام غیر مساوی ہے جس میں بلاواسطہ ٹیکسز اور سیلز ٹیکس پر انحصار ہے۔ ورلڈ بینک کے کنٹری منیجر ناجی بیہمسین نے پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے ’’فیصلہ کرنے کے وقت‘‘ کے عنوان سے اصلاحات جاری کی ہیں اور GDP میں ٹیکس کی موجودہ شرح 9.6 فیصد میں 3 فیصد اضافے کی تجویز دی ہے۔ ورلڈ بینک کی سفارشات کے علاوہ اگر سیاسی جماعتیں درج ذیل شعبوں کی اصلاحات اور ان کے کینسر کی سرجری پر اتفاق کرلیں تو یہ ملکی معیشت کیلئے اہم کارنامہ ہوگا جن میں پہلے نمبر پر خسارے میں چلنے والے اداروں کی ری اسٹرکچرنگ اور نجکاری سے قومی خزانے کے 500 ارب روپے سالانہ کے مالی نقصانات کو کم کرنا ہے۔ ان اداروں میں اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے اور بجلی سپلائی کرنے والی ڈسکوز کو پہلے مرحلے میں شامل کیا جائے۔ سابق پارلیمانی سیکریٹری اور صنعتکار رانا زاہد توصیف کے مطابق ان اداروں کو اگر فوری طور پر پرائیوٹائز کردیا جائے تو ان کا خسارہ ختم کرنے سے قومی خزانے پر بڑے بوجھ کم کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے نمبر پر انرجی سیکٹر میں اصلاحات اور معاہدہ ختم ہونے والے آئی پی پیز کی نئی شرائط پر تجدید تاکہ کیپسٹی سرچارج کی مد میں جرمانہ نہ دینا پڑے۔ گزشتہ سال حکومت نے دفاعی بجٹ سے زیادہ 2000 ارب روپے IPPs کو بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی مد میں ادا کئے جبکہ آج کل دنیا میں کیپسٹی سرچارج کے بجائے مسابقتی آفرز(Competative Bidding) کے طریقہ کار سے بجلی خریدی جاتی ہے۔

اس وقت صرف پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بڑھ کر 2500 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جن میں بجلی کی چوری، بلوں کی عدم وصولی، ناکارہ بجلی گھروں سے درآمدی فیول سے مہنگی بجلی پیدا کرنا، ناکارہ سپلائی اور ترسیل کا نظام، کرپشن اور کچھ اداروں میں حکومتی سبسڈی جیسے عوامل شامل ہیں۔ ملکی معیشت یعنی GDP میں صنعت کا حصہ 20فیصد، زراعت 19 فیصد اور سروس سیکٹر کا 61 ہے لیکن ٹیکسوں کی ادائیگیوں میں زراعت کا شعبہ 19فیصد حصے کے مقابلے میں بمشکل صرف 2 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ صنعت 20فیصد حصے کے مقابلے میں 70فیصد ٹیکس ادا کرتی ہے اور سروس سیکٹر جس کا ملکی معیشت میں حصہ 61فیصد ہے، صرف 28 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زرعی اور سروس سیکٹر ملکی معیشت میں اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کررہے جبکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر اپنے حصے سے 3 گنا زیادہ ٹیکس ادا کررہا ہے جو صنعت پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ہے جو اس شعبے کی مسابقتی سکت متاثر کررہا ہے، لہٰذا ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات اشد ضروری ہیں تاکہ ہر شعبہ اپنے حصے کا مساوی ٹیکس ادا کرسکے۔ دنیا میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز جو غیر منصفانہ ہیں، ختم کئے جارہے ہیں اور ان کی جگہ ڈائریکٹ ٹیکسز نافذ کئے جارہے ہیں جبکہ پاکستان میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز 60فیصد سے زیادہ ہو چکے ہیں جو موجودہ ٹیکس نظام کی خامی ہے۔ اس وقت سول اور ملٹری قیادت میں اسپیشل سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) ایک موثر اور مضبوط ادارہ ہے جس کو قانونی اور آئینی تحفظ حاصل ہے جس کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاری کے منصوبوں کی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ SIFC ،جس سے مجھ سمیت عوام کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں، کو اس سلسلے میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ SIFC نے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کیلئے زراعت، معدنیات، آئی ٹی اور دفاعی پیداوار کے4ترجیحی شعبوں کا اعلان کیا ہے،ان میں سرمایہ کاری کے حصول کیلئے کام شروع کردیا گیا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیرنے سعودی عرب اور یو اے ای سے زراعت کے شعبے میں 25-25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے خلیجی ممالک کو فوڈ سیکورٹی کی پیشکش کی ہے جس میں خلیجی ممالک پاکستان میں زرعی اجناس اور جانوروں کے چارے کی کاشت اور ایکسپورٹ کریں گے۔ روس، یوکرین جنگ سے پہلے زرعی اجناس یوکرین سے سپلائی کی جارہی تھیں جنگ کے باعث ان کی سپلائی متاثر ہوئی ہے جس کی بحالی کیلئے پاکستان اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ SIFC ریکوڈک اور بلوچستان میں معدنیات Mining کے دیگر منصوبوں پر بھی کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ گوادر میں دنیا کی دوسری بڑی سعودی آئل کمپنی آرامکو اور پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ آئل ریفائنری کے جوائنٹ وینچر کا MOU سائن ہوچکا ہے اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی مستقبل قریب میں پاکستان آمد پر اعلان متوقع ہے۔اس کے علاوہ ملک میں چینی، آٹا، ڈالر کی افغانستان اور ڈیزل کی ایران سے اسمگلنگ پر کریک ڈائون سے ملک میں ان اشیاء اور ڈالر کی قدر میں کمی آئی ہے جس کیلئے میں پاکستان رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں لیکن یہ عمل ایک واضح پالیسی اور سخت انتظامی اقدامات کے تحت جاری رہنا چاہئے۔ آئندہ سال جنوری کے آخر میں انتخابات کا اعلان کیا جاچکا ہے جس کے بعد ان شاء اللہ نومنتخب حکومت 5سال کیلئے ذمہ داریاں سنبھالے گی۔ تمام سیاسی جماعتوں سے میری درخواست ہے کہ وہ ان معاشی مسائل اور ان کے حل کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں تاکہ ملکی معیشت کی بحالی کیلئے تمام سیاسی جماعتیں کم از کم 5 شعبوں میں اصلاحات کیلئے متفق ہوں۔