اتحادِ اُمت اور اُس کے تقاضے

November 24, 2023

مولاناحافظ عبدالرحمٰن سلفی

اسلام دین فطرت اور انسانی زندگی کی تمام تر ضروریات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ جو ہمارا خالق و مالک ہے، وہ بخوبی جانتا ہے کہ ہماری دنیاوی و اخروی فوز و فلاح کن امور کی بجا آوری میں پنہاں ہے۔ چنانچہ اس نے رحمتِ کون و مکاںﷺ کو بحیثیت ختمی مرتبت مبعوث فرما کر ہمارے لئے دین کا اکمال و اتمام فرما دیا اور رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں کی دنیاوی کامیابی و کامرانی اور آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی حیات جاودانی کی فوز و فلاح کے لئے قرآن و سنت یعنی حدیث مصطفیٰ ﷺ کی صورت میں نسخہ کیمیا عطا فرما دیا، تاکہ بنی نوع انسان اس سے فیض یاب ہو کر اقوام عالم کی امامت و قیادت کا فریضہ بجا لائے اور اپنے خالق و مالک اللہ رب العالمین کے احکام اور اس کے محبوب، آخری پیغمبر رحمۃ للعالمین ﷺ کے اسوئہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر دونوں جہانوں کی کامیابیوں سے ہم کنار ہو۔

چناںچہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺنے امت مسلمہ کے اتحاد و یکجہتی، فکری و نظریاتی ہم آہنگی اور نظم و ضبط پر بے انتہا زور دیا ہے۔ اسلام کسی صورت بھی انتشار و افتراق کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی اسلامی معاشرے میں اس کی اجازت دیتاہے ۔ اسی لئے قرآن و سنت میں انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کے اسلوب و آداب شرح و بسط کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں، تاکہ اہل ایمان کے درمیان کسی قسم کا اختلاف رونما نہ ہونے پائے۔

لہٰذا مندرجہ بالا آیت قرآنی کے مطابق حکم دیا گیا کہ تم سب اہل ایمان باہم مل کراللہ کی رسی (قرآن و حدیث) کو مضبوطی سے تھام لو اورفرقہ فرقہ مت ہو جائو ،اللہ کی رسی سے مرادقرآن مجید اور اسوئہ محمدی ﷺہی ہیں۔ گویا واضح ارشاد ہوا کہ اگر اللہ کے ساتھ تعلق استواررکھنا چاہتے ہو تو اس کی رسی کو تھام لو اور اس کی رسی سے مراد کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہیں۔

سرور کائنات ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : تم ہر گز گمراہ نہ ہو گے، جب تک ان دو چیزوں کو تھامے رہو گے جو میں تمہارے درمیان چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب (قرآن مجید) اور دوسری میری سنت یعنی احادیث مبارکہ۔ گویا ہدایت کا سرچشمہ دو چیزوں یعنی قرآن مجید اور حدیث کو قرار دیا گیا ہے اور ان سے رو گردانی کو ضلالت و گمراہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

آج ہم امت مسلمہ کی زبوں حالی اور کسمپرسی پر نگاہ دوڑائیں اور اس ذلت و رسوائی کے اسباب و عوامل پر غور کریں تو بدقسمتی سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ امت اپنے اصل منہج سے دور ہو گئی ہے ‘جس کی وجہ سے رب کی رحمتیں ہم سے دور ہو گئی ہیں۔ تاریخ اسلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک اہل سلام فکری و نظریاتی بنیادوں پر استوار رہے، دنیاوی ترقی و عروج ان کا مقدر ٹھہرے ‘ لیکن جب اسلام کی نظریاتی اساس یعنی قرآن و حدیث سے رو گردانی کی گئی اور من چاہے افکار و نظریات پر مبنی فرقہ وارانہ سوچ کو پروان چڑھایا گیا تو وحدت امت پارہ پارہ ہوتی چلی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین اسلام جو ایک اللہ اور ایک رسول اللہ ﷺ کے فرامین پر مبنی ایک امت کا تصور لئے ہوئے تھا ،بٹواروں کا شکار ہوتا چلا گیا اور مختلف اسلام دشمن قوتوں کی رختہ اندازیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے۔

حالانکہ دین ابتداء سے ایک تھا آج بھی ایک ہے اور قیامت تک ایک ہی رہے گا۔ جیسا کہ فرمان رب العالمین ہے : بے شک، اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین تو اسلام ہی ہے۔ اب قیامت تک یہی دین اسلام جو قرآن و حدیث پرمشتمل ہے ،اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت کا حامل ہے۔ اب امت مسلمہ کو اسی اصول پر کارفرما رہنا ہے۔ دین کامل و اکمل ہے اور اس میں کسی قسم کے ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے۔ جیساکہ خود خالق کائنات نے تکمیل دین کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: آج کے دن ہم نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا او رتم پر اپنی نعمت تمام کردی اور اسلام کو بطور دین تمہارے لئے پسند فرمایا ۔(سورۃ المائدہ )

گویا سرور عالم ﷺکی حیات طیبہ میں دین مکمل ہو گیا اور ہدایت کی تکمیل ہو گئی اور اس دین یعنی قرآن و سنت کو اللہ نے امت مسلمہ کے لیے نعمت غیر مترقبہ قرار دیا یعنی اس سامان ہدایت سے قبل تم ضلالت و گمراہی میں تھے اور انتشار و افتراق کا شکار تھے کہ اسلام کی نعمت تمہارے خالق نے عطا فرمائی اور یہ ہر لحاظ سے کامل و اکمل دین تمہیں عطا فرمادیا اور اس کی پسندیدگی بھی وہیں تک ہے، جہاں تکمیل ہوئی۔ اب اگر ہم اس میں اضافہ و ترمیم کریں تو گویا وہ نعمت ابھی تمام نہیںہوئی اور نہ ہی رسالت کا حق ادا ہوا، بلکہ خاکم بدہن ہم اس دین میں کمی بیشی کر کے اس کی تکمیل کر رہے ہیں اور آئے دن نت نئے مسائل کھڑے کر کے وحدت امت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔

آج ہم جس ماحول سے گزر رہے ہیں۔ انتہائی پرآشوب دور ہے۔ آج ہر طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں اور ہم خواب غفلت کا شکار تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کہیں ہمیں علاقائی سطح پر محدودکیا جا رہا ہے تو کہیں نسلی لسانی عصبیتوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آج امت کا تصور مدھم پڑ رہا ہے۔

اب فیصلہ خود ہمیں کرنا ہے کہ آیاہم اسی طرح نسلی لسانی علاقائی عصبیتوں اورمذہبی فرقہ واریت کا شکار رہ کر تباہی و بربادی کی جانب عزم سفر ہو کر مکمل خاتمہ چاہتے ہیں یا خالص قرآن و سنت کے پاکیزہ دامن سے وابستہ ہو کر ان تمام لعنتوں سے اپنے دامن جھٹک کر دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی چاہتے ہیں ۔ یاد رکھیے آج بھی اسلام اور اہل اسلام تمام کفریہ طاقتوں کا ہدف اول ہیں اور وہ ہمیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کر کے ایک تیر میں دو شکار چاہتے ہیں ،ایک طرف تو وہ ہمیں کمزور کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ہماری قوت ومزاحمت دم توڑ جائے اور وہ من مانی پالیسیوں کے ذریعے ہم پر براجمان رہ سکیں۔

دوسری طرف اسلام کو دہشت گردی و بربریت کا لیبل لگا کر بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ آج اسلام جس تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ اسی لئے ان کی پوری توجہ ہماری طرف ہے اور انہوں نے ہمارے اندر فرقہ وارانہ اور علاقائی تعصبات کے علاوہ دیگر فتنے بھی پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ضرورت ہے کہ ہم ہر طرح کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خالص قرآن و سنت کی بنیاد پر اتحاد و یکجہتی اختیار کریں اور ایک دوسرے کی مساجد ومدارس اوردیگر مراکز کااحترام کریں۔ یاد رکھیے سرورِ عالم ﷺ نے ایک کلمہ گو مسلمان کی عزت و حرمت بیت اللہ سے بھی زیادہ قرار دی ہے۔

آج ہم انتہائی پرفتن دور میں زندہ ہیں اور تمام ترفتنوں اور آفات سے محفوط و مامون رہنے کا بس ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ خالص کتاب و سنت سے والہانہ وابستگی، اتحاد تنظیم اور باہمی اخوت و محبت ہے۔ تمام اہل اسلام سے دردمندانہ اپیل ہے کہ اللہ و رسول ﷺکے ماننے والو، کفار کی سازشوں کو سمجھو اور اپنے خالص دین سے تمسک اختیار کرتے ہوئے باہمی یگانگت ،اتحاد و اتفا ق کے ذریعے ان سازشوں کوناکام بنا دیجئے۔

بالخصوص علماء پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشیدگی کو ہوا دینے کی بجائے،تحمل و برداشت اور رواداری اختیار کریں ، اس سلسلے میں عوام الناس کا شعور بیدار کریں۔