عدلیہ کا احتساب

November 30, 2023

سپریم کورٹ میں پرویز مشرف سنگین غداری کیس کی سماعت کے دوران بنچ کے رکن جسٹس اطہرمن اللہ کے یہ ریمارکس کہ ’’مارشل لا کو راستہ دینے والے فیصلے ختم اور ایسے فیصلے دینے والے ججوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے‘‘ ایک ایسی کارروائی کی ضرورت کی نشان دہی کرتے ہیں جو سات عشروں سے وطن عزیز کے معاملات کی درستگی کیلئے ناگزیر ہے اور جس کا اب تک نہ ہونا ہی ملک میں آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوری روایات کے استحکام کے فقدان کا بنیادی سبب ہے۔ تاہم آج سے پہلے یہ تصور بھی محال تھا کہ قانونی‘سیاسی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے بارہا کیا گیا یہ مطالبہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں ایک آمر کے اقدام کیخلاف مقدمے کی سماعت کے دوران خود ایک منصف کی آواز بن کر ابھرے ہوگا۔پاکستان میں پارلیمان کی بالادستی اور جمہوریت کا گلا گھونٹے جانے کا آغاز ستمبر1954میںگورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں آئین ساز اسمبلی توڑے جانے کے اقدام کو اس وقت عدالت عظمیٰ کی سربراہی کے منصب پر فائز جسٹس منیر کے 10مئی 1955 کو سنائے گئے فیصلے میں خود ساختہ نظریہ ضرورت کی بنیاد پر جائز قرار دیے جانے کی شکل میں ہوا۔ جسٹس منیرکے اس فیصلے پر ایک ممتاز شخصیت کا یہ تبصرہ حقیقت کی بالکل درست ترجمانی ہے کہ’’ وہ ایک ایسا شخص تھا جس نے پاکستان کو اسکے ابتدائی دنوں ہی میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے تباہی کی طرف دھکیل دیا‘‘۔ جسٹس منیر کا گھڑا ہوا یہی نظریہ ضرورت ملک میں پے در پے آئین شکنی کی وارداتوں کو عدالتوں سے سند جواز عطا کیے جانے کا ذریعہ بنا۔تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ آج خود سپریم کورٹ میں اس ضرورت کا برملا اظہار کیا جارہا ہے کہ آئین شکنی کو جواز مہیا کرنے والے ماضی کے تمام فیصلوں کو کالعدم قرار دیا جائے اور انکے ذمے دار ججوں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے۔ بلاشبہ قومی معاملات کی مستقل بنیادوں پر درستی کیلئے یہ اقدام لازمی ہے اور امید ہے کہ عدلیہ کی موجودہ قیادت اس سمت میں نتیجہ خیز پیش رفت کرے گی۔