بیرونی قرضوں پر انحصار سے نجات کیسے؟

March 18, 2024

پاکستان اپنے قیام سے ہی غیر ملکی قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا آ رہا ہے۔ اس رجحان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان کے قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار کے 90فیصد تک پہنچ چکا ہے جو کہ مالیاتی رسک اور قرض کی حد بندی ایکٹ 2005ءکی مقرر کردہ 60فیصد حد سے بھی زیادہ ہے۔ بیرونی قرضوں کے حجم میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ بیس سال کے دوران قومی ترقیاتی اخراجات کا حجم 20فیصد سے کم ہو کر 12فیصد پر آ گیا ہے جس کی وجہ سے صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں پر حکومتی سرمایہ کاری مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں ترقی کی شرح میں اضافے کیلئے قرض لینے کی پالیسی کے قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بیرونی قرضے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو تجارتی خسارے کو سنبھالنے اور اہم شعبوں کو فنڈ دینے کیلئے مالی معاونت کا بنیادی ذریعہ ہیں۔

اس صورتحال میں نئی حکومت کیلئے جاری معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ مختلف ترقیاتی اشاریوں اور جمع شدہ غیر ملکی قرضوں کے درمیان روابط کا باریک بینی سے تجزیہ کرے۔ اس طرح کی جانچ پڑتال ملک کے معاشی بحرانوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کیلئے موثر حکمت عملی وضع کرنے کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے لئے یہ موازنہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت جس معاشی بحران سے دوچار ہے اس کی بڑی وجہ بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم ہے جو معاشی استحکام کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔

قومی معیشت پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی آبادی میں ہونے والا تیز رفتار اضافہ بھی ہے۔ اس خطرے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آبادی کے حجم کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ معاشی لحاظ سے پاکستان دنیا میں 46ویں نمبر پر ہے۔ اس کے برعکس امریکہ، چین اور بھارت ناصرف آبادی کے اعتبارسے دنیا کے تین بڑے ممالک ہیں بلکہ معاشی لحاظ سے بھی وہ دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں ہیں۔ یہ حالات معاشی اور مالیاتی نظم و نسق میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ دیگر ترقی پذیر ممالک بھی بیرونی قرضوں کو مالیاتی خسارہ پورا کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کو فنڈ دینے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ قرضے براہ راست اور بالواسطہ طور پر تجارت، افراط زر، شرح مبادلہ، کھپت، سرمایہ کاری، جی ڈی پی کی نمو اور قرضوں کی ادائیگی جیسے معاشی عوامل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

اس وقت پاکستان جس معاشی بدحالی کے دہانے پر کھڑا ہے اس کا تقاضا ہے کہ بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرکے فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کرپائیدار ترقی کو فروغ دینے اور قرض کے انتظام کی صلاحیت کو بہتر بنانے پر کام کیا جائے۔ علاوہ ازیں کرنسی کی قدر میں کمی، افراط زر، سیاسی عدم استحکام اور متضاد اقتصادی پالیسیوں جیسے عوامل کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو غیر ملکی قرضوں پر کم انحصار کو ترجیح دیتے ہوئے طویل مدتی قرض کے انتظام کی ایک جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ یہ حکمت عملی موجودہ قرضوں کی ادائیگی، نئے قرضوں کے جمع ہونے کو روکنے اور فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنانے پر مشتمل ہونی چاہئے۔

قرض لینے کی لاگت کو کم کرکے، قرض کی پائیداری کو بڑھا کر، سرمایہ کاروں کے اعتماد و شفافیت کو فروغ دے کر اور اقتصادی ترقی کو سہارا دے کربیرونی قرضوں کو لاحق خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے روایتی عالمی مالیاتی اداروں سے ہٹ کر غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا، بین الاقوامی منڈیوں میں بانڈز جاری کرنا، مالی امداد کے متبادل راستے تلاش کرنا مخصوص قرض دہندگان پر انحصار کم کر سکتا ہے۔

چین، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سےنجات حاصل کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں چین کی جانب سے مختلف کرنسیوں میں قرض کے اجراء نے کرنسی کے اتار چڑھاو کے اندیشے کو کم کیا ہے اور سرمایہ کاروں کی منڈیوں کو وسیع کیا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے مختلف کرنسیوں میں بانڈز جاری کرنے سے قرض لینے کی لاگت کم ہوئی ہے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے سکوک بانڈز کے اجراء نے اپنے سرمایہ کاروں کی بنیاد کو متنوع بنانے کے لیے اسلامی مالیاتی اصولوں کی تعمیل کرتے ہوئے فنڈنگ کے نئے ذرائع کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

بیرونی قرضوں پر معاشی انحصار کم کرنے کے لیے طویل المدت بنیادوں پر ادارہ جاتی اصلاحات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی مستقبل کی نسلوں کو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے مزید دبانے کے مترادف ہوگی جسے کسی طرح بھی قومی مفاد میں قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ادارہ جاتی اصلاحات کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر کے اور برآمدات پر مبنی صنعتوں کو فروغ دے کر قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری عملے کی تربیت اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے بیرونی قرضوں کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان کی خوشحالی کا راستہ پیداواری صلاحیت اور برآمدات میں اضافے، توانائی کی لاگت کو کم کرنے اور زراعت میں سرمایہ کاری کرنے میں مضمر ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)