نجکاری اور معاشی بحالی

March 19, 2024

آئی ایم ایف کو خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل تیز کرنے کی یقین دہانی قومی معیشت کی بحالی کے حوالے سے یقیناً ایک امید افزا پیش رفت ہے۔برسوں بلکہ عشروں سے ان اداروں کی نجکاری کو ناگزیر سمجھا جارہا ہے لیکن سیاسی نقصان کی وجہ سے کسی حکومت کیلئے اس سمت میں نتیجہ خیز پیش قدمی ممکن نہیں ہوسکی۔وزارت خزانہ کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق مختلف شعبوں میں212قومی تحویل میں لئے گئے ادارے کام کررہے ہیں جن میں سے 197ادارے نقصان میں چل رہے ہیں۔ 2016ءمیں ان اداروں کے نقصانات ملکی جی ڈی پی کا نصف فیصد تھے جو آٹھ برسوں میں تقریباً دس گنا ہوچکے ہیں۔انکا سالانہ خسارہ پانچ سو ارب تک پہنچ رہا ہے۔اس صورت حال کے پیش نظر وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات میں حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وفاق نے نجکاری کے ذریعے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو نجی شعبے کے سپرد کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے، پی آئی اے کی نجکاری کا عمل جلد مکمل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جبکہ مجموعی طور پر 25 ادارے نجکاری کی فعال فہرست میں شامل ہیں جن کا تعلق مالیات ، ریئل اسٹیٹ ، صنعت اور توانائی سے ہے۔ اداروں کو سرکاری تحویل میں چلانے کا طریقہ اب تقریباً پوری دنیا میں متروک ہوچکا ہے ۔ پاکستان میں بھی پچاس سال پہلے نجی صنعتیں ، بینک اور مختلف نوعیت کے کاروبار قومیائے گئے تھے لیکن اس سے معیشت تباہ ہوئی ۔یہ ادارے کرپشن کا گڑھ اور قومی خزانے پر بوجھ بن گئے تو محدود پیمانے پر ڈی نیشنلائزیشن کرکے انہیں بحال کیا گیا۔ اسکے باوجود ایسے اداروں کی ایک بڑی تعداد اب بھی قومی وسائل کے زیاں کا سبب بنی ہوئی ہے جبکہ نجی تحویل میں ان کے کامیابی سے چلنے کے امکانات روشن ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ جلد ازجلد ان کی نجکاری کا عمل مکمل کرکے معاشی بحالی کی راہ ہموار کی جائے اور اسے سیاسی مسئلہ نہ بنایا جائے۔