خمینی یا منڈیلا؟

March 19, 2024

اقوام عالم کی جدید سیاسی تاریخ میں دو رہنما ایسے ہیں جنہوں نے تاریخ پر انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں کی جدوجہد کا انداز مختلف ہے لیکن انکا نتیجہ ایک ہی ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو جسمانی اور ذہنی غلامی سے نجات دلائی۔ نیلسن منڈیلا 1918ء میں جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے نسلی امتیاز کیخلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ جنوبی افریقہ کی اس وقت کی نسل پرست حکومت نے انہیں نقص امن، جلائو گھیراؤ، قتل اقدام قتل کی مختلف دفعات کے تحت مختلف سزائیں سنائی اور انہیں جنوبی افریقہ میں ہی قید کر دیا گیا جہاں انہوں نے تقریبا 27 سال قید بامشقت میں گزارے۔ اس قید کے دوران ان پر تشدد کے تمام حربے آزمائے گئے لیکن انہوں نے ''ڈیل'' کے بجائے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے کے بجائے اپنے وطن میں ہی قید رہنے کو ترجیح دی۔ پھر انکی 27سالہ جدوجہد رنگ لائی۔ نسل پرست حکومت کا خاتمہ ہوا، اور وہ جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے۔طویل جدوجہد کی بدولت اپنی قوم کو دنیا کی صف اول کی اقوام میں لا کھڑا کیا۔دوسرے بڑے رہنما جنہوں نے عالمی سیاست پر اپنے نقوش ثبت کیے وہ ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی تھے۔ آپ 1902 میں پیدا ہوئے۔ 1964 کے اواخر میں ایرانی حکومت نے امریکی شہریوں کیلئے ایک خصوصی قانون پاس کیا جس کے تحت یہ قرار دیا گیا کہ امریکی شہریوں کو ویانا کنونشن کے تحت وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو عام طور پر سفارت کاروں کو حاصل ہوتے ہیں یہ قانون بنتے ہی پورے ایران میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی اور امام خمینی نے وہ شہرہ آفاق تقریر کی جو بعد میں انقلاب ایران کا پیش خیمہ ثابت ہوئی انہوں نے اپنی تقریر میں کہا''میرا دل درد سے پھٹا جا رہا ہے میں اس قدر دل گرفتہ ہوں کہ موت کے دن گن رہا ہوں اس شخص (محمد رضا شاہ پہلوی) نے ہمیں بیچ ڈالا ہماری عزت اور ایران کی عظمت خاک میں ملا ڈالی،اہل ایران کا درجہ امریکی کتے سے بھی کم کر دیا گیا ہے اگر شاہ ایران کی گاڑی کسی امریکی کتے سے ٹکرا جائے تو شاہ کو تفتیش کا سامنا ہو گا لیکن کوئی امریکی خانساما ںشاہ ایران یا اعلیٰ ٰترین عہدے داروں کو اپنی گاڑی تلے روند ڈالے تو ہم بے بس ہوں گے، آخر کیوں؟''

اس تقریر کے بعد امام خمینی کو گرفتار کیا گیا اور پھر جلا وطن کر دیا گیا۔جلاوطنی کے دوران وہ کچھ عرصہ ترکی اور پھر فرانس میں مقیم رہے جہاں سے خطوط اور آڈیو خطابات کے ذریعے اپنی قوم کی ذہنی اور شعوری تربیت جاری رکھی یہاں تک کہ یکم فروری 1979 ءکو ایک فاتح کی حیثیت سے وہ وطن واپس لوٹے اور اپنی قوم کے روحانی و سیاسی سربراہ بنے۔بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی تاریخ اس طرح کے قابل فخر کرداروں سے خالی رہی ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد شاید ہی کوئی ایسا صاحب کردار رہنما عطا ہوا ہو جس نے اس انداز میں قوم کی رہنمائی کی ہو۔ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلے رہنما تھے جنہیں مقبولیت حاصل ہوئی تھی اور انہوں نے سمجھوتے کے بجائے موت کو ترجیح دی۔ورنہ جس رہنما پر بھی آزمائش کا وقت آیا،تو وہ بیماریوں کا بہانہ بنا کر ملک سے فرار ہوا اور واپسی بھی کسی ڈھیل یا ڈیل کے ذریعے ہوئی۔نئے معروضی حالات میں عمران خان ایک نئے کردار کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ان کے بارے میں پروپیگنڈا کیا گیا تھا کہ وہ نشے کے بغیر ایک دن نہیں رہ سکتے لیکن آج انہیں سات ماہ سے زائد عرصہ ہو گیا ہے اور وہ حکومتی تحویل میں ہیں۔ انہوں نے کسی کے ساتھ کوئی ڈیل کی ہے نہ ہی بیماری کا بہانہ بنایا ہے نہ ہی ملک سے باہر جانے کو ترجیح دی ہے بلکہ وہ مسلسل اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اسی موقف کو قوم نے آٹھ فروری کے انتخابات میں وہ بے مثال پذیرائی بخشی ہے جس کی ماضی قریب میں مثال ملنا مشکل ہے۔ ان کے امیدواروں کے پاس اپنا نشان تھا نہ ہی اپنا پرچم،یہاں تک کہ اپنی جماعت کا نام بھی ان کے پاس موجود نہیں تھا۔عمران خان سمیت تمام بڑے رہنما جیلوں میں بند تھے انہیں انتخابی مہم چلانے کی اجازت تک نہ تھی اس کے باوجود تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے وہ عدیم المثال کامیابی حاصل کی جنہوں نے تمام تجزیہ نگاروں کو ششدر کر کے رکھ دیا۔اب عمران خان یہ فیصلہ کریں گے کہ جدوجہد کیلئے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اگر انہوں نے نیلسن منڈیلا کا راستہ اختیار کیا تو وہ جتنے دن جیل میں بند رہیں گے ان کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا رہے گا اور وہ ایک ایسے رہنما بن کے باہر نکلیں گے جن کی مقبولیت کا مقابلہ کسی بھی انجینئرنگ کے ذریعے ممکن نہیں ہوگا اور عوام ان کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کیلئے تیار ہونگے۔ اور اگر انہوں نے بیرون ملک جانے کا راستہ اختیار کیا تو وہ خمینی کی طرح ایک ایسے شخص کی مانند واپس آئینگے جس کے سامنے ٹھہرنا ممکن نہیں ہوگا۔وہ ہر قسم کی سیاست کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائینگے۔ دونوں صورتوں کا انتخاب تو عمران خان نے کرنا ہے لیکن جس بھی صورت کا وہ انتخاب کرینگے اسکے بعد پاکستانی قوم کیلئے ایک انقلاب کا راستہ ہموار ہوتا ہوا نظر آئیگا۔ اب اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ موجودہ بھنور سے نکلنے کی کنجی صرف ایک شخص کے پاس ہے اسکا نام عمران خان ہے۔ وہ اس قوم کو خمینی کی طرح اس آزمائش سے نکالے گا یا منڈیلا کی طرح، اسکا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔