سیاسی سچائیاں، غلط فہمیاں اور دور اقتدار

March 19, 2024

پاکستانی سیاست میں مختلف اور متضاد سوچ کے حامل دوسیاستدان ایسے ہیں کہ جو کہتے ہیں تقریباً وہ کرکے دکھاتے ہیں۔ ان میں ایک موجودہ صدر مملکت آصف علی زرداری اور دوسرے بانی پی ٹی آئی ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کو سیاست کے ماسٹر یا گرو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ گزشتہ دور صدارت سے کافی قبل انہوں نے کہا تھا کہ آنیوالے دنوں میں ایوان صدر اور پارلیمنٹ میں جئے بھٹو کے نعرے سے گونجیں گے اور ویسا ہی ہوا۔ آصف علی زرداری صدر مملکت بنے جبکہ وزیر اعظم بھی جیالے ہی بن گئے تھے۔ اس بار بھی وہ صدر بن گئے جس کا انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔ سیاست کے ماسٹر وہ اس لئے ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت کے نتائج کوجانتے ہوئے وہ کسی اہم عہدے سے نہ صرف خود دور رہے بلکہ اپنی پارٹی کوبھی اس سے دور رکھا۔ البتہ بلاول بھٹو زرداری کو بطور ٹرینی وزیر خارجہ بنوایا۔ اس وزارت کاملک کے اندرونی حالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ موجودہ حالات میں نہ صرف وہ صدر بنے بلکہ اہم آئینی عہدے بھی لے لئے ۔ اور دلچسپ بات یہ ہےکہ وہ اتحادی ہونے کے باوجود حکومت میں شامل بھی نہیں ہیں۔ اس طرح حکومتی فیصلوں کے نتائج اور ذمہ داری سے ایک بار پھر محفوظ ہیں۔ میاں نواز شریف بھولے بھالے مگر سینئر سیاستدان ہیں۔ ہم نے ان کی وطن واپسی سے قبل بھی تحریر کیا تھا کہ اگر وہ یہ سمجھ کر واپس آئیں گے کہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم بننے جارہے ہیں تو اس کوان کی سادگی یا بھول ہی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن وہ اسی سوچ کے ساتھ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوکر وطن واپس آئے۔ یار لوگوں نے ان کو بطور ہونیوالے وزیر اعظم کے اشتہارات بھی چھپوائے حتیٰ کہ الیکشن میں امید واروں میں ٹکٹیں تقسیم کرنے کے طویل عمل کے دوران بھی وہ اسی غلط فہمی کا شکار رہے۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاست میں طویل عرصہ گزارنے اور تین بار وزیر اعظم بننے کے باوجود وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ ان کو بلی چڑھا یاجارہا ہے اور ان کو صرف سامنے رکھ کر پارٹی ورکرز اور ان کے حمایتوں وہمدردوں کو گرمانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ جوبھی ہوا جنہوں نے بھی کیا لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ان کے ساتھ اچھا نہیں کیا گیا۔ مریم نواز شریف کو وزیر اعلیٰ پنجاب بناکر کچھ تشفی کی کوشش کی گئی ہے لیکن پنجاب جیسے صوبے کو چلانا ایک مشکل امتحان ہے بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ دے کر ان کو بڑے امتحان میں ڈالا گیا جو ان کے سیاسی مستقبل کا تعین کرےگا۔ اس کے باوجود اچھے کی امید رکھنی چاہیے مستقبل کا حال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور ہوتا بھی وہی ہے جس کا فیصلہ وہ کرتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) یا شہباز شریف حکومت کے دور اقتدار کی مدت تو اللہ پاک نے مقرر کی ہے وہی رہے گی ۔ ملکی اور ظاہری حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ان کے دور اقتدار میں اہم کردار کا حامل ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ دوسرا ہونیوالا معاہدہ انتہائی مشکل ہوگا مشکل اس طرح نہیں کہ معاہدہ نہیں ہوگا ذرائع کے مطابق معاہدہ تو ہوجائے گا اور یہ چھ تا آٹھ ارب ڈالرز کے قرضے کا معاہدہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے اثرات بھگتنا عام پاکستانی کے لئے بہت مشکل ہونگے۔ یہ معاہدہ ملکی معاشی حالات کے پیش نظر انتہائی ضروری بھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاہدے پر بات چیت کے آغاز سے تکمیل تک کے عمل میں کتنا وقت لگتا ہے اور وہی اس حکومت کی مدت کا تعین کرے گا علاوہ ازیں اس کے نتائج کے لئے نہ صرف عوام بلکہ مسلم لیگ (ن) کو بھی تیار رہنا چاہیے ۔

بانی پی ٹی آئی اگرچہ سیاست کے دائو پیچ سے نابلد ہیں وہ سیاست کو بھی جذبات اور انا کی عینک سے دیکھتے ہیں اور مردم شناس بھی نہیں ہیں لیکن جو کہتے ہیںاس پر عمل ضرور کرتے ہیں اس کا نتیجہ چاہے کتنا ہی کڑوا اور نقصان دہ ہو مثال کے طور پرانہوں نے ماضی قریب میں کہا تھا کہ ان کے اقتدار کے خاتمے کا ملک کو بہت نقصان ہوگا ان کے بغیر ملک نہیں چل سکے گا۔ انہوں نے اس کو سچ ثابت کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔مثال کے طور پر9مئی کے واقعات اور اس سے پہلے لاہور میں پولیس پر تشدد اور ان کی گاڑیاں نذر آتش کرنا، بوتل بم چلانے، شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی، پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں سوشل میڈیا پر شرمناک مہم چلانا، آئی ایم ایف کو حالیہ دنوں میں خط لکھ کرپاکستان کیلئےقرضہ میں رکاوٹ ڈالنے پر اکسانےکی گھنائونی کوشش اور امریکی کانگریس کے کچھ ارکان کو پاکستان مخالف موقف اختیار کرنے کی ترغیب دینا۔ کیا ملک کا وفادار اور سیاست کے دائو پیچ سمجھنے والا سیاستدان ایسےکسی بھی عمل کا سوچ بھی سکتا ہے۔ مردم شناس وہ اس لئے نہیںہیں کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ کون ان کو صحیح اور کون غلط مشورے دیتا ہے اسلئے وہ اس حال کو پہنچے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک جو کچھ انکی طرف سےہوا یہ انکی غلط فہمیوں کی وجہ سے ہوا کہ وہ ہی مقبول ترین لیڈر ہیں اور وہ اگر ڈٹ کرمقابلہ کرینگے تو ہر معاملے میں فتحیاب ہونگے ان کواس طرح کی غلط فہمیوں میں ان لوگوں نے مبتلا کیے رکھا جو انکے بہت قریب تھے اور کچھ لوگ آج بھی انکے کندھے پر بندوق رکھ کر اور جھوٹی تسلیاں دیکر روزبروز دلدل میں پھنسا رہے ہیں۔ اب تو وہ ویسے بھی فارغ ہیں اور اکیلے بھی ہوتے ہیں انکو بیٹھ کراپنی غلطیوں کا جائزہ لینا چاہئے اور ان لوگوں کو سمجھنا چاہئے جن کے مشوروں سے وہ اس حال تک پہنچے ہیں اور کچھ لوگ آج بھی انکو غلط فہمیوں میں مبتلا رکھ کر اپنے مقاصد حاصل کررہے ہیں۔