صدر مملکت کا خطاب

April 20, 2024

صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب میں ملک کو درپیش سیاسی، معاشی اور سماجی چیلنجوں کے تناظر میں باہمی اختلافات افہام و تفہیم کے ماحول میں ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ملک کو درپیش مشکلات میں ہم اختلافات کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے، ایسا ماحول بنانا ہوگا جس میں حدت کم اور روشنی زیادہ ہو ۔صدر نے کہا کہ دہشت گردی سے ہماری قومی سلامتی اور علاقائی امن و خوشحالی کو خطرہ ہے، ہم پڑوسی ممالک سے دہشت گردی کے خلاف سخت کارروائی کی توقع رکھتے ہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے 5اگست2019اور اس کے بعد اٹھائے گئے تمام غیرقانونی اقدامات واپس لے۔ صدر نے کہا کہ چینی بھائیوں اور بہنوں کی سیکورٹی یقینی بنانے کیلئے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔مشکل وقت پر ساتھ دینے پر انھوں نے دوست ممالک، بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، ترکیہ اور قطر کا شکریہ ادا کیا۔ملک کے داخلی معاملات کے حوالے سے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ہمیں تمام صوبوں میں بہتر تعلقات اور اداروں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی۔انھوں نے کہا کہ معیشت کی بحالی کیلئے سب کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا اور پاکستان سے باہر تجارت کیلئے نئی منڈیاں تلاش کرنا ہونگی ۔صدر آصف زرداری نے زور دے کر کہا کہ اس ایوان کو پارلیمانی عمل پر عوامی اعتماد بحال کرنے کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس سال 8فروری کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کے تحت بننے والی 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کے آغاز پر منعقد ہونے والے دونوں معزز ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں مہمانوں کی گیلری میں اعلیٰ سول و ملٹری حکام ، اسلام آباد میں تعینات غیرملکی سفرا، وزرائے اعلیٰ اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی سرکردہ شخصیات نے صدر کا خطاب سنا۔اجلاس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کی۔دوسری بار صدر پاکستان بننے والے آصف علی زرداری قبل ازیں 2008میں پانچ سال کیلئے اس عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ مشترکہ پارلیمان سے صدر کے خطاب کے دوران ماضی میں بھی اپوزیشن جماعتیں احتجاج اور نعرہ بازی کرتی آئی ہیں تاہم جب صدر متذکرہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے تو اپوزیشن کے احتجاج میں کچھ نئی باتیں دیکھنے میں آئیں۔ یہاں تک کہ بعض ارکان بگل اور باجا بجا رہے تھے اور معزز ایوان میں ہونے والے شورشرابے میں مہمانوں کو ایئر فون لگائے صدر کی تقریر سنتے دیکھا گیا۔ اپوزیشن ارکان نے پلے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے۔اس احتجاج سے واضح ہورہا تھا کہ یہ لوگ نہ تو مفاہمت کی بات سننا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی حکومتی نمائندے کی طرف سے وسیع تر اتفاق رائے اور قومی منصوبہ بندی کی ضرورت پر دلائل سننے کو تیار تھے۔ یہ ہنگامہ آرائی دیکھ کر کوئی بھی ذی شعور جان سکتا ہے کہ ایسا کرنے والوں کا مقصد نہ تو آئینی بالا دستی کو یقینی بنانا تھا اور نہ ہی یہ لوگ معیشت کے بارے میں فکرمند دکھائی دے رہے تھے۔ سیاسی ناعاقبت اندیشی کے اس ماحول میں جہاں صدر مملکت کا خطاب سنا اور نہ سننے دیا گیا، یہ سب تہذیب اور ترقی یافتہ ملکوں کی روایات کے منافی ہے۔ صدر پاکستان کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب محض ایوانوں تک محدود نہیں، یہ ملک و قوم کے ہر طبقے کیلئے اتنا ہی اہم ہے ، جس قدر ارکان پارلیمنٹ کیلئے ہے۔ لہٰذا معزز ایوان میں ہونے والی ہنگامہ آرائی سے قطع نظر صدر کا خطاب ایک دستاویز کی حیثیت کا حامل ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم برسوں سے جاری جو انتشار و افتراق دیکھتے آرہے ہیں، یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہئے، ان پر قابو پاکر اتحادو یک جہتی کی راہ پر گامزن ہوجائیں تو ترقی یافتہ اقوام میں شمولیت کا خواب بہت جلد شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔