غیر مسلموں سے رواداری اور باہمی تعلقات کا تصور

May 03, 2024

ڈاکٹر نعمان نعیم

اسلامی ریاست میں ریاست کے تمام باشندے بلاامتیازِ رنگ و نسل اورمذہب و ملت بنیادی حقوق کے حق دار ہیں، ان کی جان ومال ،عزت و آبرو کا تحفظ اسلامی ریاست کی بنیادی ذمے دار ی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: دین کے بارے میں کوئی زبردستی اور جبر نہیں ۔(سورۃ البقرہ)قرآن پاک نبی کریم ﷺ کو خطاب کرکے ہر مسلمان کو تنبیہ کرتا ہے: ترجمہ:’’ اگر اللہ چاہے تو زمین کے تمام رہنے والے مومن ہوجائیں تو کیا تم لوگوں کو مومن بنانے میں جبر و اکراہ کرنا چاہتے ہو‘‘۔ اسلام نے محض حریت عقیدہ کا نظریہ ہی نہیں پیش کیا ،بلکہ عملی و قانونی طور پر اس کی حفاظت بھی کی ہے، اس سلسلے میں کسی پر کوئی جبر نہ کیا جائے، جیسا کہ آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے ۔ارشادِ ربّانی ہے:اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھے پیرائے میں نصیحت کے ساتھ بلائو اور ان سے بحث و مباحثہ اور اختلاف بھی اچھے طریقے سے کرو۔(سورۃ النحل )

بلا کسی شک و شبہ ،اللہ ایک ہے ، وہ اکیلا سارے نظام عالم کو چلا رہا ہے ، ذات اور وصف کے اعتبار سے وہ واحد ہے اور وحدانیت کو پسند کرتا ہے ، اس کی ذات یا صفت میں کسی کو شریک کرنا قرآن کی اصطلاح میں ظلم عظیم ہے اور یہ جرأت اللہ کے لیے ناقابل برداشت ہے ، قرآن کہتا ہے:’ﷲ تعالیٰ شرک معاف نہیں کرے گا اور اس کے علاوہ تمام خطائیں جو چاہے گا درگزر کردے گا۔(سورۃ النساء : ۱۱۶)

مومنین یعنی خدا کو ایک ماننے والے ، احکامِ الٰہیہ کے پیرو کار ﷲ کی نظر میں محبوب ہیں ، انہیں جنت اور آخرت کی کامیابی کی بشارت دی گئی ہے اور ﷲ کے ساتھ شریک کرنے والے اللہ کی نظر میں مبغوض اور ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہیں ، آخرت میں ناکام اور نامراد ہوں گے ، اس لیے کہ انھوں نے اپنے حقیقی رب کو فراموش کردیا، اس کے احسانات سے استفادہ کرتے ہیں، مگر احسان فراموشی کرکے اپنے رب سے آنکھیں موند لیتے ہیں ، دنیا کے اس زبردست نظام اور خود اپنی جسمانی ساخت اور مختلف نظام پر غور کرتے تو معبودانِ باطلہ کو چھوڑ کر حقیقی معبود تک رسائی ہوجاتی، مگر غفلت سے کام لیتے ہوئے اپنے حقیقی فرائض کو چھوڑ بیٹھے اور شرک جیسے گناہ عظیم کے مرتکب ہوئے ، اسلام جو انسان کو ابدی راحت فراہم کرتا ہے اور جو محسن حقیقی کی پہچان کراتا ہے ، اس سے وہ دور رہے ، اس طرح بنی نوعِ انسانی کے دو گروہ ہو گئے ، ایک مسلم اور دوسرا غیر مسلم اسلام قبول کرنے والا گروہ مقدس اور پسندیدہ ہے اور غیر مسلم گروہ ناپسندیدہ اور مبغوض ہے۔

قرآن مجید میں تفصیلی طور پر دونوں کے الگ الگ احکام بیان کیے گئے ہیں اور مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ غیر مسلم ﷲ کے دشمن ہیں ، اس لیے ان سے دوستی ، قلبی محبت ، رازدارانہ تعلقات نہ رکھے جائیں ، اس سلسلے میں درج ذیل آیات نازل کی گئیں :(ترجمہ)مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یار و مددگار ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا ﷲ سے کوئی تعلق نہیں ، ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ ۔(سورۂ آلِ عمران : ۲۸)

(ترجمہ)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ ، تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالاںکہ جوحق تمہارے پاس آیا ہے، اسے ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں ۔(سورۃ الممتحنہ:۱)

(ترجمہ)اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی انہیں اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر ان ہی میں ہے ۔( سورۃ المائدہ: ۱۵)

(ترجمہ)تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ ﷲ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں ، وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں ، جنھوں نے ﷲ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت کی ہے ، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان ۔( سورۃالمجالۃ : ۸۵ )

(ترجمہ)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ ،اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں ، تم میں سے جو انہیں رفیق بنائیں گے، وہی ظالم ہوں گے ۔(سورۃالتوبہ : ۲۳ )

اس مضمون پر مشتمل اور بھی متعدد ایسی آیات ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ کفر و شرک اختیار کرنے والوں سے کسی طرح کی دوستی نہیں کی جائے گی اور نہ ان سے کوئی سمجھوتہ کیا جائے گا ، خواہ ان سے خونی رشتہ ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ یہ لوگ اللہ کی نازل کردہ چیزوں کا انکار کرتے ہیں اور ﷲ اور اس کے رسولﷺ سے منہ موڑتے ہیں ، وہ اس لائق نہیں ہیں کہ ان سے محبت کا معاملہ کیا جائے اور ان سے قربت اختیار کی جائے ،لیکن قرآن کی دوسری آیات ، احادیث مبارکہ ، رسول اکرم ﷺاور صحابۂ کرامؓ کے تعامل سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان خواہ کافر اور غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو، اسے بعض بنیادی حقوق حاصل ہیں، انہیں زندہ رہنے، معاشی جدو جہد کرنے، اپنا مال اور جائیداد رکھنے اور اس میں تصرف کرنے اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق سب سے نمایاں ہے، اسلام ان کی جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ انسانیت کے اعتبار سے جوان کے حقوق ہیں، ان کا مکمل احترام کیا جائے، اس لیے کہ غیر مسلم بھی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد اورانسان ہیں ، انسانیت کے لحاظ سے وہ بھی قابل تکریم ہیں ، علامہ شامیؒ نے اس پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے : آدمی شرعی اعتبار سے محترم ہے خواہ وہ کافر ہو ، غیر مسلم عقیدے کے اعتبار سے ناپاک اور ناقابل التفات ہیں ، مگر دوسرا پہلو آدمیت کا ہے ، اس لحاظ سے وہ قابل احترام ہیں۔

غیر مسلم کے ان دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اہل علم و تحقیق اور فقہائے کرام نے ان سے تعلقات کی درج ذیل تین قسمیں بیان کی ہیں:

۱-موالات : اس سے مراد قلبی اور دلی محبت ہے ، یہ صرف ہم عقیدہ یعنی مسلمانوں کے ساتھ جائز ہے ، کفار و مشرکین سے رازدارانہ تعلق ، قلبی محبت، ان کا حقیقی احترام کہ جس سے کفر کا احترام لازم آئے جائز نہیں ہے۔

۲-مواسات: اس کے معنی ہمدردی ، خیر خواہی اور نفع رسانی کے ہیں ، ایسے غیر مسلم جو برسرپیکار اور مسلمانوں سے جنگ کے درپے نہیں ہیں ، وہ ہماری ہمدردی ، خیر خواہی کے مستحق ہیں ، سورۂ ممتحنہ کی آٹھویں آیت میں اس کی وضاحت ملتی ہے :ﷲ تعالیٰ تمہیں منع نہیں کرتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو ، جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔(سورۃالممتحنہ : ۸)

ایسے لوگوں سے حسن سلوک ، ہمدردی و غم خواری میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اس سے متاثر ہوکر اسلام سے قریب ہوں گے، مسلمانوں کے حسن اخلاق سے متأثر ہوں گے اور آپسی فاصلہ کم ہوگا۔

۳- مدارات : اس سے مراد ظاہری خوش خلقی اور ادب و احترام ہے ، یہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے ، خاص طورپر جب اس سے مقصد دینی نفع رسانی ، اسلام کی دعوت ، اسلامی اخلاق و برتاؤ پیش کرنا ہو یا وہ ہمارے مہمان ہوں اور مہمانوں کا احترام بہر حال لازم ہے یا ان کے شر و ضرر رسانی سے حفاظت مقصود ہو ، علامہ سیوطیؒ سورۂ نساء کی ایک آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :تمہیں ان سے خوف و اندیشہ ہو تو زبان سے بظاہر دوستانہ رویہ، رواداری درست ہے، قلبی دوستی جائز نہیں ، یہ حکم اسلام کے غلبہ سے قبل تھا ، لیکن آج بھی ایسے علاقے میں جہاں مسلمان کمزور ہیں ، یہ درست ہے۔

بیسویں صدی کے مشہور محقق مولانا اشرف علی تھانویؒ خلاصۂ بحث میں اس طرح تحریر فرماتے ہیں:کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں:﴿۱﴾۔موالات:یعنی دوستی، ﴿۲﴾۔مدارات:یعنی ظاہری خوش خلقی ، ﴿۳﴾۔ مواسات : یعنی احسان و نفع رسانی ، ان معاملات میں تفصیل یہ ہے کہ موالات تو کسی حال میں جائز نہیں اور آیت میں یہی مراد ہے اور مدارات تین حالتوں میں درست ہے ، ایک دفعہ ضرر کے واسطے ، دوسرے اس کافر کی مصلحت دینی یعنی توقع ہدایت کے واسطے ، تیسرے اکرام ضیف کے لیے اور اپنی مصلحت و منفعت مال یا جاہ کے لیے درست نہیں اور بالخصوص جب کہ ضرر دینی کا بھی خوف ہوتو بدرجۂ اولیٰ یہ اختلاط حرام ہوگا ۔( ﴿بیان القرآن : ۱/۲۰۴)

مذکورہ تفصیلات سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کے ساتھ ظاہری رواداری، حسن اخلاق ، شیریں زبان وغیرہ درست ہے اور جب اسلام کی تعلیم اور مسلمانوں کے اخلاق پیش کرنا مقصد ہوتو بہتر اور مستحب ہے، اس پر انھیں اجر بھی دیا جائے گا۔ سیرت نبوی سے اس بات کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ فتح مکہ کا وہ تاریخی دن بھی تاریخ میں محفوظ ہے ، جب مکہ فتح ہوچکا تھا ، دشمنانِ اسلام سہمے ہوئے تھے ، ہزاروں تلواریں اشارۂ نبوی ﷺکی منتظر تھیں، سارے مشرکین صحن کعبہ میں موجود ہیں ، آپ چاہتے تو ان کے ایک ایک جرم کا بدلہ لے سکتے تھے ، مگر ان جانی دشمنوں کو معافی کا پروانہ دے دیا گیا ، ارشاد فرمایا : جاؤ ! تم سب کے سب آزاد ہو‘‘۔

اسی طرح مکہ سے مایوس ہوکر طائف کی وادی میں اسلام کی دعوت دینے پہنچے، اوباش لڑکوں نے پتھر مار مار کر لہولہان کردیا، بظاہر ناکام اور مایوس ہوکر لوٹ رہے تھے ، راستے میں ﷲ کی طرف سے دو فرشتے آئے اور کہا کہ آپﷺ کا حکم ہوتو اس بستی والوں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے، لیکن آپﷺ نے فرمایا نہیں ، ایسا نہ کریں کیا پتہ ان کی آئندہ نسلیں دعوت ِحق کے اس پیغام کو قبول کرلیں۔

غزوۂ خندق کے موقع پر ایک مشرک فوجی خندق عبور کرکے مسلمانوں کی طرف آگیا اور حضرت علیؓ کے ہاتھوں مارا گیا ، کفارِ مکہ نے لاش کی قیمت ادا کرکے لاش حاصل کرنی چاہی ، لیکن آپﷺ نے قیمت نہیں لی اور یوں ہی ان کی لاش ان کے حوالے کردی ، اس طرح کے بیش تر رواداری اور حسن اخلاق کے ایسے واقعات ہیں کہ تاریخ ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ، حیرت اس لیے بھی ہے کہ یہ رواداری اس صورتِ حال میں تھی جب کہ آپﷺ ان کفار سے برسرپیکار تھے اور ہر وقت ان سے ضرر رسانی کا خطرہ رہتا تھا ، ایسے وقت لوگ جذبات میں حسن سلوک اور ظاہری خوش خلقی سے عموماً متصف نہیں رہ سکتے ؛ بلکہ ایسے حالات میں انسانیت کا بھی احترام ختم ہوجاتا ہے۔

یہ اسلام کی تعلیم ہے کہ حسن اخلاق اور رواداری بہر حال پیش نظر رکھنی چاہیے ، اس سے صرف ِنظر مسلمانوں کا وصف نہیں ہوسکتا ، اس لیے صحابۂ کرامؓ بھی اسی تعلیم پر عمل پیرا تھے، حضرت عمر فاروقؓ جو کفار کے حق میں نسبتاً سخت سمجھے جاتے ہیں، ایک روز مسجد سے نکل رہے تھے کہ ایک نصرانی فقیر کو دیکھا، بھیک مانگ رہا ہے، فاروق اعظمؓ اس کے پاس گئے اور حال دریافت کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا کہ تیری جوانی اور قوت کے زمانے میں ہم نے تجھ سے ٹیکس وصول کیا اور جب تو بوڑھا ہوگیا تو اب ہم تیری امداد نہ کریں ، اسی وقت حکم دیا کہ بیت المال سے اسے تاحیات گزارہ (الاؤنس) دے دیا جائے ۔( جواہر الفقہ : ۵/۷۰) (جاری ہے)