برطانوی مسلمان اور عام انتخابات

June 27, 2024

تحریر: محمد عجیب… بریڈفورڈ
برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کی کل تعداد 650ہے اور اس وقت پارلیمنٹ میں مسلم ارکان کی کل تعداد 19ہے جو کہ 15 لیبر اور 4کنزرویٹو پارٹی سے ہیں۔ اس کے علاوہ 500سے زائد مسلم کونسلرز مقامی کمیونٹیز کی خدمت کر رہے ہیں جو بنیادی طور پر تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ برطانوی مسلمان برطانیہ کی کل آبادی کا 3.2فیصد ہیں لہذا، ہماری پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی غیر متناسب طور پر بہت کم ہے۔گزشتہ سال اکتوبر کے اوائل میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے آغاز اور اس کے بعد صیہونی اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد سے برطانوی مسلمانوں میں ہماری حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے جنگ بندی اور نسل کشی کو روکنے کے مطالبے سے انکار پر شدید تشویش اور مایوسی پائی جاتی ہے۔ برطانوی مسلمانوں کی طرف سے یہ بجا طور پر شکوہ کیا گیا ہے کہ گزشتہ طویل عرصے سے لیبر پارٹی کے ساتھ ان کی سیاسی وفاداری کو پارٹی کے رہنما سر کئیر سٹارمر نے حقارت کے ساتھ جنگ بندی کی ان کے مطالبہ کو نظر انداز کر کے دھوکہ دیا ہے ۔ ہماری حکومت اور اپوزیشن کی دانستہ لیکن انتہائی پر تنقید خارجہ پالیسی سے پیدا ہونے والا غصہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ برطانوی معاشرے کے تمام طبقات میں موجود ہے اور ہر کسی کو واضح طور پر نظر آتا ہے، لیکن کیا ہمارے پاس برطانوی ووٹرز کی حیثیت سے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کسی بھی پارٹی کی سیاسی حمایت کا کوئی انتخاب باقی رہ گیا ہے؟ اور کیا ہمیں صرف فلسطین کے واحد مسئلے پر غور کر کے ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرنا چاہیے؟ انتخابات میں جیتنے والی پارٹی پانچ سال کی مدت کے لیے حکومت بنانے کی اہل ہوتی ہے اور ہمیں یہ ضرور جاننے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری روزمرہ کے زندگی سے متعلق تمام اہم مسائل کو حل کرنے میں کون سی پارٹی مخلص ہے۔ اس وقت برطانیہ جن نہایت اہم سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل سے دوچار ہے ان میں انتہائی اہمیت کےحامل اور میری ترجیحات میں شامل سب سے اول نیشنل ہیلتھ سروس کی حالت زار ہے جسے جان بوجھ کر گزشتہ دس سال سے ضروری مالی امداد سے محروم رکھا گیا جس کے نتیجہ میںآج ہماری ہیلتھ سروسز کا معیار انتہائی پست سطح پر پہنچ چکا ہے۔بے روزگاری اور روز مرہ زندگی کی ضروریات کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ، غربت اور بالخصوص بچوں کی غربت میں تیزی سے مسلسل اضافہ، بے گھر افراد کی تعداد اور رہائشی گھروں کے کرایہ میں بے حد اضافہ ، ہر شہر کی گلیوں کوچوں میں گداگروں کی بھیڑ وغیرہ ۔ یہ جملہ مسائل کنزرویٹو حکومت کی گزشتہ 10 برسوں کی کفایت شعاری کی پالیسی کی وجہ سے پروان چڑھے ہیں ۔ یہ میری ترجیحات کی فہرست ہے جس کو ووٹ ڈالتے وقت نظر انداز نہیں کروں گا۔ غزہ کے حالات کے بارے میں جذبات صرف عام مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے عام لوگوں میں بھی اتنےہی ہیں برطانیہ میں ہم نے اپنی سڑکوں پر مختلف سیاسی نظریات اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگوں کو احتجاج اور مظاہرے کرتے ہوئے دیکھا ہے لیکن کیا وہ 4 جولائی کو بڑی تعداد میں اپنا احتجاجی ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں نکلیں گے اور اگر نکلیں گے تو کیا وہ محض آزاد امیدواروں کی حمایت کریں گے؟ وہ ایسا اس لئے نہیں کریں گے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خالی غیر ملکی پالیسی کو بنیاد بنا کر ووٹ دینے سے ان کے دیگر سماجی اور معاشی امور کو پس پشت ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ برطانوی مسلمان سیاسی طور پر ایسے مقامی اور بین الاقوامی سانحات اور واقعات جن کا تعلق ان کے مذہب سے وابستہ ہوتا ہے متعد د بار ضرورت سے زیادہ جوش و جذبہ سے بھرپور رد عمل کا شکار رہے ہیں اور اسکے نتیجے میں ابھرتے نئے درپیش حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے گہری سیاسی سوچ اور دانش کے ساتھ پیش کرنے کی اہلیت کم ہی رکھتے ہیں جو بعد میں ان کی ضروری سیاسی پیشرفت میں رکاوٹ بنتی رہتی ہے۔ ہم اس بات کو نظر انداز کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ ہم 21ویں صدی کے برطانیہ میں رہتے ہیں، ایک ایسا ملک جہاں انتہائی ترقی یافتہ لبرل جمہوریت ہے اور جس پر طویل عرصے سے دو تین بڑی سیاسی جماعتوں کی حکومت رہی ہے برطانیہ بنیادی طور پر ایک ارتقائی اور اصلاحی معاشرہ ہے انقلابی نہیں منفی سیاست کو شاذونادر ووٹروں نے قبول اور منظور کیا ہے جبکہ معاشرے میں گھٹن اور مایوسی کی سطح کو کم کرنے کے لیے اکثر مفاد پرست گروہوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لئے برطانیہ میں کسی بھی مذہبی اور نسلی اقلیتی ممبر کا آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کی خواہش اور فیصلہ کرنا، میری نظر میں، ناقابل تلافی حماقت ہے۔ برطانیہ میں اپنے سیاسی مقصد کو حاصل کرنے کا واحد راستہ مرکزی دھارے کی سیاست ہے۔ ہمیں مقامی سفید فام اکثریت کو ادراک کرانا ہے کہ ہم اس معاشرے کا لازمی حصہ ہیں۔ تنہائی پسندی کی سیاست اقلیتوں کے لیے سیاسی خودکشی ثابت ہوسکتی ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے حامی سیاستدان ہمارے خلاف مزید پروپیگنڈاکرنے کے موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمیں چوکس رہنا چاہیے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس ملک میں چھوٹی سیاسی پارٹیوں اورگروہوں کے ذریعے ہمارا استعمال اور استحصال نہ کیا جائے۔ آج ہمارے پاس 19 ممبران پارلیمنٹ ہیں ان سب کا تعلق دو بڑی سیاسی جماعتوں سے ہے ہم ان کی جگہ چند آزاد امیدواروں کو کامیاب بنا سکتے ہیں لیکن نتیجہ یہ نکلے گا کہ مرکزی دھارے میں ہم بہت کم تعداد میں رہ جائیں گے۔کسی بھی پارلیمانی جمہوریت میں اکثریت کا نقطہ نظر ہمیشہ غالب رہتا ہے۔ مسلم اراکین کی چھوٹی سی تعداد کا کسی بھی فیصلہ سازی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان افراد کو صرف وہاں بیٹھنے اور اپنی تنخواہوں کی وصولی کرنے کی اجازت ہوگی برطانوی مسلمانوں کو مرکزی دھارے کی سیاست میں شامل ہونا پڑے گا ۔ اگر برطانوی مسلمان چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں عزت اور وقار کے ساتھ زندگی بسر کریں تو تمام سیاسی جماعتوں سے الگ تھلگ اور بے اعتمادی کا شکار نہ ہوں کہ ان کو برطانوی معاشرے میں انضمام پر آمادہ نہ ہونے کے الزام کا سامنا کرنا پڑے۔