’’بدوبدی ‘‘ کے مسائل

June 30, 2024

مجھے نزلہ زکام کھانسی کے بارے میں بات کرنا کبھی اچھا نہیں لگتا کہ سننے والوں کو اس مرض میں مبتلا شخص سے رتی بھر ہمدردی نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کہ یہ تو روزمرہ کی چیز ہے ۔عمر بھر کا ساتھی ہے اس کا شکوہ کرنا آداب محبت کے منافی ہے دراصل جو خواتین و حضرات اس طرح کی باتیں کرتے ہیں انہوں نے اس بن بلائے مہمان کے بارے میں صرف سنا ہوتا ہے اس کی میزبانی کا شرف انہیں حاصل نہیں ہوا ہوتا یہ ایک ’’میسنی‘‘ بیماری ہے جن دوستوں کی مادری زبان پنجابی نہیں ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ میسنی اور میسنا اس عورت اور مرد کو کہتے ہیں جو دیکھنے میں بھلے مانس لگتا یا لگتی ہے لیکن دراصل وہ آفت کی پڑیا ہوتی یا ہوتا ہے۔ نزلے زکام کا مریض آپ کو دیکھنے میں بھلا چنگا لگے گا آپ کسی صاحب کے سامنے پانچ سات چھینکیں ماریں گےاور آپ سے پہلے وہ صاحب الحمدللہ کہیں گے اور آپ کو بتائیں گے کہ یہ نزلہ آپ کےلئے کس قدر ضروری تھا آپ کتنے خوش نصیب ہیں کہ آپ کے اندر کا فاسد مادہ آپ کے ناک کے رستے کس خوبصورتی سے خارج ہو رہا ہے اور دیکھیں بار بار ناک پر رومال مسلنے سے آپ کی ناک سرخ ہو گئی ہےاور آج پہلی دفعہ آپ کے چہرے کا کوئی حصہ ایسا نظر آ رہا ہے جسے دیکھنے سے انسان کی جمالیاتی حس مجروح نہیں ہوتی۔ایسے موقع پر میں ان کا شکریہ ادا کرنے کیلئے تین چار بار بلکہ بار بار آنے بہانے اپنی ناک ان کی ناک کے برابر لاکر بات چیت کرتا ہوں ان کی کسی بات پر اظہار مسرت کیلئے ان کے گال کے تین چار بوسے بھی لیتا ہوں وہ حضرات میری اس والہانہ محبت پر خوش ہو رہے ہوتے ہیں اور نہیں جانتے کہ جس بیمار کے وہ قصیدے پڑھ رہے ہیں میں یہ نعمت ان کو بھی ’’دان‘‘ کرنے جا رہا ہوں کہ مجھے علم ہے چھوت کی بیماری بہت جلد دوسروں سے بے تکلف ہو جاتی ہے اس وقوعہ کے تین چار دن بعد ان سے ملاقات ہوتی ہے تو میں اس ’’میسنی‘‘ بیماری کی تعریف کر رہا ہوتا ہوں اور وہ اپنی سرخ ناک کو مسل مسل کر مزید سرخ کر رہے ہوتے ہیں اس سے بھی زیادہ کمینی بیماری زکام ہے ۔انسان نہ تو کھانس رہا ہوتا ہے اور نہ ناک صاف کر رہا ہوتا ہے، اس کی زد میں آئے ہوئے شخص کا صرف دماغ بند ہوتا ہے اس کے کان میں آوازیں پڑتی ہیں مگر بہت غوروخوض کے بعد پتہ چلتا ہے کہ دوسرا کیا کہہ رہا ہے، جب دماغ بند ہو جائے اور انسان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت باقی نہ رہے تو وہ دوسروں کیلئےترنوالہ بن جاتا ہے ۔1958 ، 1969، 1977اور 12اکتوبر 1999میں ہماری مارشل لائی قیادت کو زکا م نے جکڑا ہوا تھا ورنہ وہ ملک کو تباہی کے رستے پر کبھی گامزن نہ کرتے یہ زکام جاتے جاتے ہی جاتا ہے چنانچہ اس کے آثار ابھی تک باقی ہیں ۔

باقی رہی کھانسی تو یہ نزلے اور زکام سے قدرے مختلف ہے یہ اگرچہ شور بہت مچاتی ہے مگر اندر سے یہ بھی میسنی ہے اس کی تکلیف کا اندازہ صرف اسی کو ہوتا ہے جسے یہ چمٹی ہوتی ہے دوسروں کیلئے اس کی حیثیت صرف کھانسی کی ہے وہ اس کا موازنہ کینسر ،ٹی بی، شوگر، فالج اور اس طرح کی دوسری عالمی طاقتوں سے کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں یار کیا واویلا کر رہے ہو ایک کھانسی ہی ہے نا!کوئی جان لیوا مرض تو نہیں چنانچہ وہ جوشاندہ پینے کا مشورہ دیں گے کہ ان کے نزدیک اس بیماری کی اوقات اس سے زیادہ نہیں بلکہ آپ ایک دفعہ کسی کے سامنے کھانس کر دیکھیں وہ فوراً حکیم اجمل خان کے روپ میں سامنے آ جاتا ہے اور طبی مشورے دینے لگتا ہے کئی ایک تو زبیدہ آپا بن جاتے ہیں اور ٹوٹکے بتانے لگتے ہیں کچھ ستم ظریف تو ایسے بھی ہیں کہ اگر آپ ہلکے ہلکے کھانس رہے ہوں تو وہ آپ کی اس نوع کی کھانسی پر صدقےواری ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں آپ کی کھانسی میں کتنا ردھم ہے ایسے لگتا ہے کوئی چاندی کے ورق کوٹ رہا ہو۔دوسری طرف کھانسنے والے کی پسلیاں مسلسل کھانسنے سے درد کرنے لگتی ہیں اسے سانس میں بھی رکاوٹ محسوس ہونے لگتی ہے اور یوں اس بیماری کی شدت اور تکلیف سے وہی واقف ہوتا ہے جس پر یہ بلا نازل ہو ئی ہوتی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے میرا اپنا معاملہ بھی کچھ اس قسم کا ہے میں بیماریوں کی بات کر رہا ہوں اور اسکےساتھ ان بے صبرے عوام کی بھی جو میرے سامنے چھوٹے چھوٹے دکھ بیان کرتے ہیں مجھے ان کی باتیں سن کر دل میں ہنسی آ رہی ہوتی ہے مگر میں خود پر ضبط کرکے پوری سنجیدگی سے ان کی باتیں سنتا ہوں ۔مثلاً یہ لوگ مجھے بتائیں گے کہ شاید گرمی کے موسم میں جب آدھی رات کو لائٹ چلی جاتی ہے اور پھر صبح تک نہیں آتی تو ان کا اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا حال ہوتا ہے میں انہیں کہتا ہوں کہ تم لعنت بھیجو انگریزوں کی دریافت بجلی کو اپنے کلچر سے محبت کا ثبوت دینے کیلئے دستی پنکھے استعمال کرو بل بھی نہیں آئے گا ہاتھوں کی ورزش بھی ہو جائیگی کوئی کہتا ہے کہ اس کی تنخواہ صرف پچیس ہزار ہے اس میں مکان کا کرایہ بھی دینا ہے بال بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہے میں انہیں نہایت ہمدردانہ انداز میں سمجھاتے ہوئے بتاتا ہوں کہ تم کبھی دلی، بمبئی یا کلکتے جائو وہاں لوگ قطار اندر قطار اپنی فیملی سمیت فٹ پاتھ پر سو رہے ہوتے ہیں۔ فٹ پاتھ کی نعمت ہمارے ہاں بھی موجود ہے بلکہ بڑے خوبصورت پارک بھی ہیں تمہارا بڑا خرچہ مکان کے کرائے کا ہے ایک کمرے میں زندگی بسر کرنے کی بجائے وسیع وعریض فٹ پاتھوں اور پارکوں میں عیش سے رہو تمہیں زندگی گزارنے کا پہلی بار مزا آئے گا کئی لوگ چیختے چلاتے میرے پاس آتے ہیں کہ ان کی ماں سخت بیمار ہے ان کا بچہ موت کے دہانے پر ہے ،مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جو جانتے ہی نہیں زندگی اور موت اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے یہ جان بچانے کیلئے ڈاکٹر اور انگریزی دوائوں کی طرف بھاگتے ہیں۔

میرے نزدیک یہ اور اس طرح کے دیگر مسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہمارے لوگوں نے خواہ مخواہ انہیں مسئلہ بنایا ہوا ہے اصل مسئلہ نزلہ زکام اور کھانسی ہے جس کی زد میں میں خود آیا ہوں باقی لوگ خواہ مخواہ واویلا کرتے رہتے ہیں!