وفاقی بجٹ اور عوام

June 30, 2024

قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کیلئے منظور ہونے والا 8500ارب روپے خسارے کا وفاقی بجٹ جس کا مجموعی تخمینہ 18.877ٹریلین روپے ہے اور جس میں12970ارب روپے کے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں ، مہنگائی میں مزید اضافے کی بنا پر پاکستانی شہریوں کی زندگیوں کو یقینا اور زیادہ دشوار بنائے گا۔ اپوزیشن نے اگرچہ بجٹ پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے عوام دشمن قرار دیا ہے تاہم اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ یہ صورتحال محض قرضوں کے بل پر معیشت کی گاڑی کو کھینچنے کی ہماری عشروں سے جاری پالیسیوں، کرپشن کی کھلی چھوٹ، حکومتی شاہ خرچیوں اور ملک میں موجود بے پناہ قدرتی وسائل کو استعمال میں نہ لانے کی غلط کاریوں کا نتیجہ ہے ۔ اس کے نتیجے میں قومی معیشت کی کشتی جس دلدل میں پھنس گئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بجٹ کے مطابق حکومتی اخراجات میں سب سے بڑا حصہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کا ہے جس کی مالیت 9775 ارب روپے ہے۔ یہ رقم دفاعی اخراجات کا تقریباً چار گنا اور مجموعی اخراجات کے نصف سے بھی زیادہ ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کیلئے عالمی مالیاتی فنڈ سے اس کی شرائط پر مزید قرض لینا فی الوقت ہماری ناگزیر مجبوری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے بجٹ پر سخت تنقید کے باوجود اس کی منظوری میں تعاون کیا۔ بجٹ عام آدمی کیلئے محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے اور اس کیلئے صرف یہ جاننا اہم ہوتا ہے کہ بجٹ سے اسے کوئی سہولت ملے گی یا اس کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی۔ اس تناظر میں یہ امر واضح ہے کہ12970 ارب روپے کے ٹیکسوں کا بوجھ بالآخر صارف کو منتقل ہوگا اور سب سے زیادہ مشکل کا سامنا نجی شعبے کے تنخواہ دار طبقے کو کرنا پڑے گا کیونکہ اس کے پاس اخراجات میں اضافے کا بوجھ کسی اور پر ڈالنا ممکن نہیں ہوتا جبکہ آمدنی پر پورا ٹیکس بھی صرف تنخواہ دار طبقہ ہی دیتا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بجٹ میں تنخواہ دار افراد کی آمدنی پر ٹیکس میں بے پناہ اضافہ کردیا گیا ہے۔ حکومت نے سرکاری ملازموں حتیٰ کہ ارکان پارلیمنٹ کے مالی وسائل میں بھی بھاری اضافے کیے ہیں لیکن نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی کوئی ضمانت مہیا نہیں کی گئی۔ کم سے کم اجرت 32 ہزار سے بڑھا کر37 ہزار کرنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن نجی اداروں میں نہ ایسے حکومتی فیصلوں پر پہلے کبھی عمل ہوا اور نہ کم سے کم اجرت کی مناسبت سے زیادہ اہم ذمے داریاں انجام دینے والے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کیے گئے۔ملک میں نجی اداروں کے وابستگان کی تعداد سرکاری ملازموں سے کئی گنا زیادہ ہے لہٰذا بجٹ کے منفی اثرات سے شہریوں کی بہت بڑی تعدادیقینی طور پر بری طرح متاثر ہوگی۔اس صورت حال کے تدارک کا اہتمام بھی بہرکیف حکومت کی ذمے داری ہے۔ خسارے کے باوجود حکومت نے 1400 ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام کیلئے رکھے ہیں جبکہ دفاع کیلئے 2122 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ کے مطابق نان فائلر کا تصور ختم کردیا جائے گا اور ہر سطح پر ڈیجیٹلائزیشن کو یقینی بنایا جائے گاجو یقینا ایک خوش آئند بات ہے کیونکہ اس طرح ٹیکس چوری ممکن نہیں رہے گی جس کے سبب تنخواہ دار افراد پر ٹیکسوں کا بار کم کرنا بھی مشکل نہیں ہوگا۔ وزیر خزانہ نے میکرو اکنامک اشاریوں کی بہتری کی بات اگرچہ بظاہر درست کی ہے لیکن معیشت کی بہتری کے لیے سرکاری اخراجات میں آخری ممکنہ حد تک کمی، وفاقی وزارتوں کی تعداد کا محدود کیا جانا،آئی پی پیز کی لوٹ کھسوٹ سے قوم کو نجات دلانا،اشرافیہ کی مراعات ختم کرنا نیزملک چھوڑ جانے والے سابق سرکاری ملازمین کی پنشن اور مراعات کا سلسلہ بند کرنا بھی معاشی بحالی کے لیے قطعی ناگزیر ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ان پہلوؤں پر بھی توجہ دی جائے اور اس سمت میں جلد عملی اقدامات کیے جائیں۔