بجٹ، کفایت شعاری پالیسی؟

June 30, 2024

قارئین بجٹ سے قبل وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کی جانب سے جو کفایت شعاری پالیسی کا چرچا تھا، اس بابت سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ وفاقی کابینہ اور نواز شریف کی زیر قیادت پارٹی کے اجلاس ہو رہے تھے ،اس سے ایک خوش فہمی پیدا ہو گئی تھی کہ شاید حکومت نے واقعی حقیقی کفایت شعاری کا فیصلہ کرلیا ہے، لیکن بجٹ دستاویزات، بجٹ تقریر اور وزیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں ثابت ہوا کہ بجٹ سے قبل کمر کس لینے اور کفایت شعاری کے جن نعروں کا غلغلہ تھا، وہ حکومت کیلئے نہیں بلکہ عوام کیلئے تھے کیونکہ حکومت کے شاہانہ اخراجات میں ایک روپے کی بھی کمی نہیں کی گئی۔ قوم سوال کر رہی ہے کہ آئی ایم ایف نے صرف 3ہزار ارب روپے کے اضافی فنڈز کا مطالبہ کیا تھا، جس کیلئے حکومت نے ایک جانب پیٹرول لیوی پر 20روپے اضافے کا مستقل بندوبست کر دیا اور تمام چھوٹی موٹی اشیاء پر ٹیکس نافذ کر کے عام آدمی کی گردن میں پھندا مزید تنگ کردیا ہے جبکہ اگر حکومت چاہتی تو آسان راستہ یہ تھا کہ اشرافیہ کیلئے 3900ارب کی ٹیکس مراعات، اسی اشرافیہ کی ملکیت آئی پی پیز کو بھتے کے طور پر ادا کی جانے والی رقم2800 ارب روپے اور ججوں، جرنیلوں اور بیورو کریٹس کو 770ارب روپے کی مفت بجلی اور پیٹرول کی فراہمی روک لی جاتی تو نہ صرف یہ کہ آئی ایم ایف کے مطلوبہ 3ہزار ارب کا بندوبست ہو سکتا تھا بلکہ عوام کو 4470ارب کی مراعات اور سبسڈ یز بھی دی جا سکتی تھیں۔ حکومت نے البتہ دوسرا راستہ اختیار کرنا پسند کیا ہے، غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر اشرافیہ کی عیاشیاں جاری رکھنے کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس ملک میں 60فیصد شہری فائلر اور نان فائلر کا مطلب تک نہیں جانتے اور جہاں 90فیصد تعلیم یافتہ لوگ بھی ایف بی آر کا پیچیدہ گوشوارہ سمجھنے سے عاری اور وکیل کی مدد حاصل کرنے پر مجبور ہیں وہاں نان فائلر کی زندگی مشکل بنانے والی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ المیہ نہیں کہ کھربوں کمانے والے صنعتکار صرف 86ارب روپے کا ٹیکس دے رہے ہیں اور پائی پائی کمانے والے تنخواہ دار طبقے کی جیب سے 320ارب روپے کا ٹیکس نکال لیا گیا ہے۔

حکومت نے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر بوجھ میں اتنا بڑا اضافہ کردیا ہے،حقیقت یہ ہے کہ بجٹ میں حکومت نے آمد ن کے نئے ذرائع تلاش کرنے اور معیشت کو فروغ دے کر اضافی محصولات جمع کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کے بجائے پہلے سے بوجھ تلے دبے طبقات پر ہی ٹیکس میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے، ان میں سب سے زیادہ ناانصافی تنخواہ دار طبقے سے ہوتی نظر آرہی ہے، گزشتہ 2برسوں سے ملکی معیشت کی جو حالت ہے، جس طرح افراط زر کی شرح لوگوں کی آمد ن کو کھا گئی ہے، پھر خراب مالی حالات کی وجہ سے تنخواہوں میں اضافہ تو درکنار لوگوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہوئی ہے۔ ایسے میں تو حکومت کو تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینا چاہئے تھا، لیکن بجٹ دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ حکومت صرف سرکاری ملازمین کو ہی تنخواہ دار اور ریلیف کا حقدار سمجھتی ہے، جن کی تنخواہ میں 25فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں صحافیوں نے بھی بجٹ پر احتجاج کیا، تاہم وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کوئی تجویز سننے کیلئے تیار نظر نہیں آئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ افراط زر کے حساب سے انکم ٹیکس کی شرح اور حد پر نظر ثانی کی جاتی۔ بجٹ دستاویز کے مطابق 12 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدن پر5 فیصد 24 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدن پر ٹیکس کی نئی سلیب مقرر کی گئی ہے۔ اس میں ایک لاکھ 80 ہزار روپے ٹیکس دینے کے علاوہ 24 لاکھ روپے سے زائد کی آمدن پر 25 فیصد انکم ٹیکس بھی دینا پڑیگا۔ اس طرح بالخصوص تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کا زیادہ بوجھ پڑیگا۔ انکم ٹیکس کی وصولی کیلئے حد6لاکھ سے بڑھا کر کم از کم 10لاکھ کی جانی چاہئے تھی، لیکن حکومت نے نہ صرف سالانہ 6لاکھ آمدن یعنی 50ہزار سے ایک روپیہ بھی زیادہ کمانے والوں کو ٹیکس نیٹ میں رکھا ہے، بلکہ ان پر ٹیکس کی شرح بھی ڈھائی فیصد سے بڑھا کر 5فیصد یعنی دگنی کر دی۔

وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ٹیکسوں کی چوری کو کم کرنے کیلئے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لایا گیا ہے جس کا مقصد تمباکو، سیمنٹ سمیت ہر شعبہ میں ٹیکس چوری روکنا تھا ہمارے پاس ڈیٹا موجود ہے کہ کس کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں اور کون کتنا بل دیتا ہے۔ دوسری جانب عوام پر بوجھ بڑھانے کیلئے فوری منظوری دے دی جاتی ہے، پیٹرولیم مصنوعات جو پہلے ہی بہت مہنگی کی جاچکی ہیں، ان پر 20روپے فی لیٹر لیوی اضافہ کیا جا رہا ہے، اسی طرح بجلی، کاغذ، اسٹیشنری، طبی سامان، چینی، موبائل فون وغیرہ پر ٹیکس بڑھا دیا گیا۔ حکومت کی اتحادی جماعت پی پی پی کی رکن اسمبلی آصفہ بھٹو نے بھی اس بجٹ کو مسترد کر دیا ہے ۔ حیرت انگیر بات یہ ہے کہ ایک بھائی بجٹ پیش کر رہا ہے تو دوسرا بھائی بجٹ میں شریک نہیں ہوا تاکہ کل لوگوں کو یہ کہہ سکیں کہ میں اس میں شامل نہیں تھا۔ نیز تمام فیڈریشن اور مقامی تاجروں نے بھی اس بجٹ کو مسترد کردیا ہے اور وہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں کہ یہ کیسا بجٹ ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایشیا میں پاکستان میں بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت 62روپے ہے جبکہ بھار ت میں 7روپے جو پاکستانی 21روپے بنتے ہیں، بنگلا دیش ایک یونٹ 9ٹکہ یعنی پاکستانی 20روپے، افغانستان 4افغانی یعنی پاکستانی 15روپے جبکہ سری لنکا میں ایک یونٹ پاکستانی 27روپے کا ہے۔