کوئی کنفیوژن سی کنفیوژن ہے

June 30, 2024

بانی پی ٹی آئی کیلئے درد دل رکھنے والی سائفر یوتھ فورس کو مبارک ہو، امریکہ نے شہباز حکومت کے خلاف بھی ”مداخلت“ کردی۔ اب خوش، حساب برابر، کوئی شکوہ شکایت تو نہیں۔2018 ءمیں آپ کے بانی فیض یاب ہوئے اور 2024ء (ن) لیگ اور انکی اتحادی جماعتوں کے نام رہا۔ پھر حساب کتاب کیسا؟کیوں در در منتیں سماجتیں کرتے پھرتے ہو۔ جشن مناؤ، شادیانے بجاؤ، ماہی آوے گامیں پُھلاں نال دھرتی سجاواں گی، جیسے گیت گنگناؤ لیکن ایک بات یاد رکھو کہ جب ڈراؤنے خواب نظر آنے لگیں کچھ بن نہ پائے تو بے بس انسان اس سے زیادہ کیا کرسکتا ہے کہ ایک اور یوٹرن لے کر پینترا بدل جائے۔ کبھی فوج سے مذاکرات کی خواہش پر دم نکلے، پھر امیدیں اللہ سے رکھنے کی بجائے امریکہ سے وابستہ کر لی جائیں اور فوج سے آنکھیں چرانے لگیں، گفتگو کے انداز عاجزانہ، معذرت خواہانہ، پشیمانہ ہونے کی بجائے مزید دھمکی آمیز ہو جائیں، سوشل میڈیا سے جنگجو اداروں کے خلاف زہر آلود گولہ باری تیز کر دیںاور مدد بھی اسی عطار کے لونڈے امریکہ سے مانگیں جس نے سائفر کے ذریعے حکومت گرائی تو سائفر یوتھ فورس کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ سب سیاست دانوں کے ڈھکوسلے ہیں کہ جب بات نہ بنے تو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے لگتے ہیں۔ کسی نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھنا ہی نہیں۔ یہاں سیاست کا ایک ہی چلن ہے فوج کے خلاف مہم چلاؤ یا اپنی تمام تر نالائقیوں کا ملبہ امریکہ پر ڈال کر عوام کو ورغلاؤ، دھوکہ دو، ہماری سیاست کبھی فوج اور امریکہ سے آگے نہیں بڑھی، ہر سیاسی جماعت کا لیڈر بیان بازی کی حد تک تو یہی کہتا ہے کہ فوج کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔ فوج کا کام صرف سرحدوں کی حفاظت کرنا، جب بات دہشت گردوں کے خلاف آپریشن عزم استحکام کی آئے تو یہی سیاست دان رنگ برنگی بولیاں بولنے لگتے ہیں۔ موقع محل دیکھ کر سیاسی دباؤ بڑھاتے اور فوج کوزور زبردستی سے سیاست میں گھسیٹ کر اقتدار میں شراکت مانگتے ہیں۔ بڑے مولانا سے مرشد تک یہی کہانی ہے۔ مرشد کی غلط فہمی کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں، در در دستک دیتے ہیں کہ مجھے جیل سے باہر نکالو۔ پہلے صرف فوج سے مذاکرات کے خواہش مند تھے جب کوئی جواب نہ ملا تو محمود خان اچکزئی کو مذاکرات کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا۔ کسی نے اشارہ کیا کہ امریکہ مدد کو آرہا ہے۔ ملک کی تباہی میں مشکوک کردار کے حامل بھگوڑوں نے ڈالروں کے عوض لابنگ فرموں کے ذریعے امریکی سینیٹ سے بھاری اکثریت سے آٹھ فروری کے عام انتخابات کی شفافیت بارے تحقیقات کرانے کی قرار داد منظور کرالی تو سائفر یوتھ فورس کے لیڈر کا لب و لہجہ ہی بدل گیا ہے۔ محمود خان اچکزئی جیسے مدبر سیاست دان کو مذاکرات کا جھانسہ دے کر پھر مکر گئے کہ مرشد کے کیا کہنے کہ اپنے ہرکارے بار بار بڑے مولانا صاحب جیسے ازلی سیاسی دشمن کے در پر بھیج رہے ہیں۔ مرشد کی سمجھ آتی ہے نہ بڑے مولانا کی۔ ویلے دی نمازتے کویلے دیاں ٹکراں، کبھی قبول عام نہیں ہوتیں۔ کہ بڑے مولانا کی امامت میں حکومت اور اداروں کو دباؤ میں لانے کی یہ کوششیں بھی بار آور ثابت نہیں ہو رہیں اور اُلٹا پی ٹی آئی میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہو چکا ہے، ایک نئی کہانی شروع ہونے والی ہے۔ دوسری طرف بڑے مولانا نے بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیل رکھیں۔ وہ بھی مرشد کے استاد ہوتے ہیں اب انہوں نے پی ٹی آئی والوں کو اپنے پیچھے لگا رکھا ہے کہ بانی کی بیرک کو لگے تالے کی کنجی جیسے انہی کے پاس ہے۔ استادوں کے استاد بڑے مولانا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں اور مرشد بدستور غلط فہمیوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ شائد خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑ رہا ہے لیکن یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ مولانا کی قربانی کا یہ اونٹ کب کس کروٹ بیٹھے گا۔ پہلے پہل پیپلز پارٹی کے ہمدم دیرینہ تھے۔ مرشد کی حکومت کا تختہ کرنے کے بعد انتخابی نتائج حسب منشانہ آنے پر سب سے بھاری آصف زرداری پر ساری گیم اُلٹ پلٹ کرنے کا الزام لگا دیا اور بڑے میاں صاحب کومسکراتے چہرے کے ساتھ راتوں کو ملنے لگے۔ جب سے چھوٹے میاں کی اتحادی حکومت نے گیلی مٹی پر پاؤں جمائے اور مولانا صاحب کھڈے لائن لگے ہیں تب سے ان کا ایک نیا رنگ روپ سامنے آیا ہے کہ شہباز حکومت نامنظور، بلاول بھٹو اب انہیں منظور۔ بجٹ اجلاس میں عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ شہباز کی اتحادی حکومت نے عوام دوست بجٹ کے نام پر ملک کا کباڑا کر دیالیکن اس میں بلاول بھٹو کا کوئی کردار ہے نہ وہ اتحادی حکومت کے حصے دار ہیں۔ گویا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ فاصلے کم ہو رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں گورنر انہی کا ہے اور بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت سے انہیں کچھ لین دین کرناہے جس کی راہ نکالی جارہی ہے۔ بڑے مولانا قومی اسمبلی میں آپریشن عزم استحکام پر خوب گرجے برسے، آپریشن کے مخالف بھی ہیں اور خیبرپختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال سے پریشان بھی۔ بقول مولانا صاحب کہ نماز مغرب کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان میں گھر سے باہر نکلنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ہر طرف مسلح دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں۔ مولانا کو ان بگڑے حالات میں امارات اسلامیہ افغانیہ کے آثار نظر آتے ہیں پھر بھی فوجی افسروں، جوانوں، سکیورٹی اہلکاروں کی شہادت کا حساب مانگتے ہیں۔ کوئی کنفیوژن سی کنفیوژن ہے کہ آخر مرشد اور بڑے مولانا امریکہ اور فوج سے کیا مانگتے ہیں؟ کوئی یہ بات سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کے لئے جو کوششیں کی جارہی ہیں اور ان کوششوں میں چین جو کردار ادا کررہا ہے چینی وزیر کی پاکستان آمد اور سی پیک فیز ٹو جیسے گیم چینجر منصوبوں کی تکمیل اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے چین کے ساتھ مکمل اظہار یک جہتی کے اعلان کے فوراً بعد امریکی قرار داد کا مقصد آخرکیا ہے؟