کتاب زندہ ہے

June 30, 2024

گزشتہ صدی میں کہا گیا تھا

یہ دو ہزار سالہ کتابوں کا عشق ختم

ترسیل ِ علم کے نئے رستے نکل پڑے

مگر یہ سب باتیں غلط ثابت ہوئیں، کتابوں سے عشق اکیسویں صدی میں بھی اسی طرح ہے جیسے بیسویں صدی میں تھا۔ اس وقت انگریزی میں ہرسال چالیس لاکھ کے قریب کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ اردو زبان میں بھی کتابوں کی اشاعت بڑھی ہے کم نہیں ہوئی۔ بلکہ علم جیسے جیسے پھیلتا جا رہا ہے، کتابیں پڑھنے والوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور اب کتابیں انتہائی خوبصورت شائع کی جا رہی ہیں کہ علم کے ساتھ ساتھ شیلف کی زینت بھی بنیں۔ اس وقت میرے سامنے ایک ایسی ہی کتاب موجود ہے۔ اس کا نام ’’تاریخ ِ نوشاہیہ‘‘ ہے۔ یہ جہازی سائز میں آٹھ سو چودہ صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ہے۔ جلد انتہائی خوب صورت ہے۔ سیاہ چمڑے کی عبرک سے مزئین، جس میں اترے ہوئے لفظ، درمیان میں گہرے سرخ رنگ چار انچ چوڑی کاغذی پٹی جس پر کتاب کا نام سفید الفاظ میں درج کیا گیا ہے۔ کتاب کواور زیادہ خوبصورت بنا رہا ہے۔ یہ کتاب لیاقت حسین نوشاہی نے لکھی ہے اور مرکزی بزم ِ نوشاہیہ نے شائع کی ہے۔ کتاب کے آخر میں جو حوالہ جات درج کیے گئے ہیں۔ میں نے مکمل تو نہیں پڑھی مگر جستہ جستہ اسے ضرور دیکھا ہے اور مجھے خوشی ہوئی کہ تاریخ نوشاہیہ کے بے شمار اختلافی مسائل انہوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے حل کیے ہیں۔ حسن نثار کی کتاب ’’آدم خور نظام کا نوحہ‘‘ بھی مجھے آنکھیں دکھا رہی ہے۔ اس کے سارے لفظ کھردرے ہیں، کھردرے لفظ سے تنویر سپرا یاد آگیا ہے جس نے کہا تھا

کتنا بعد ہے میرے فن اور پیشے کے مابین

باہر دانش ور ہوں لیکن مل میں آئل مین

یہ کتاب ہمارے آدم خور نظام کےخلاف حسن نثار کی احتجاجی اپیک ہے۔ اشرافیہ کے خلاف ایک للکار ہے۔ یہ پوری معاشرت کو جھنجھوڑ دینے والی تحریریں ہیں۔ ان میں دکھ بھی اور غصہ بھی۔ چیخ بھی ہے اور دھاڑ بھی۔

سہیل وڑائچ کی کتاب ’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘ اگرچہ چند سال پہلے شائع ہوئی تھی مگر اس وقت اس کے میز پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ موجودہ دور میں بھی اپنی پوری معنویت رکھتی ہے۔ پھر اس کا وہ ٹائٹل جس کیلئے کتاب بک اسٹالوں سے اٹھا لی گئی تھی۔ وہ تو آج کے دور میں بھی معنی خیز ہے۔

ایک اور خوبصورت کتاب بھی میرے سامنے دھری ہے یہ علامہ قاضی غلام مرتضی صابر نوشاہی کا دیوان ہے، اسے بھی بڑے اہتمام سے بڑے سائز میں شائع کیا گیا ہے اور شاعری بھی پوری طرح استادانہ ہے ایک شعر دیکھئے

ابھی تک یاد ہے دل کو سماں عشوہ طرازی کا

وہ کیا عالم تھا ہائے اس نظر کی نیم بازی کا

عرفان صدیقی کا شعری مجموعہ ’’گریز پا موسموں کی خوشبو‘‘ بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس میں سے ایک شعر دیکھئے

تمام ہو گا یہ آزمائش کا مرحلہ کیا

کہ تا قیامت رہے گا یوں ہی یہ سلسلہ کیا

کل یہ آزمائش کا مرحلہ عرفان صدیقی کیلئے تھا، آج کسی اور کیلئے مگر ان کے بقول لگتا یہی ہے کہ یہ سلسلہ یونہی تاقیامت جاری رہے گا۔

ایک اور کتاب بھی میزپر دھری ہے، زاہد آفاق کی یہ کتاب ’’مشغلہ‘‘ بھی اسی سال شائع ہوئی ہے۔ صرف کتاب خوبصورت انداز میں شائع نہیں کی گئی، شاعری بھی شاندار ہے ایک شعر دیکھئے

اک ذرا پائوں کی زنجیر جو ہل جاتی ہے

اپنا لہجہ ہی بدل لیتا ہے زنداں کا سکوت

یہ شعر ہی بتا رہا ہےکہ شاعر اپنے زمانے میں جی رہا ہے اور عہدِ موجود کے جبرو ستم کو نہ صرف پوری طرح محسوس کرتا ہے بلکہ اس کے خوبصورت اظہار کا سلیقہ بھی رکھتا ہے۔

رانا سعید دوشی اردوزبان کے بہت توانا شاعر ہیں۔ ان کی کتاب بھی سامنے پڑی ہے۔ پنجابی زبان میں انہوں نے ایک نئے انداز میں ہیر لکھی ہے، اس کتاب کا نام ہے ’’ہیر دوشی‘‘۔ علی نواز شاہ کا ناول یہوہ بھی یہیں دھرا ہے۔ یہ ایک مختلف ناول ہے۔ تاریخ کے تناظر میں لکھا گیا یہ ناول تہذیب و تمدن پر چڑھائے گئے فرغلوں کی دھجیاں بکھیرتا دکھا ئی دیتا ہے۔

شاہین عباس کا ناول ’’لیمہ یکہ بان‘‘ بھی مجھے کسی نے پڑھنے کیلئے دیا تھا، ابھی ابھی ختم کیا ہے۔ یہ بھی ایک خوبصورت ناول ہے۔ اس کا ٹائٹل بھی بہت شاندار ہے۔

اشرف نقوی کی حمد ونعت پر مشتمل شاعری کی کتاب ’’حرفِ مدحت‘‘ بھی سامنے رکھی ہے یہ عشقِ رسول میں ڈوبی ہوئی ایک کتاب ہے۔ میری دعا ہے کہ بارگاہ قدسی میں اسے شرف ِ قبولیت حاصل ہو۔

شاہد مسعود کا مجموعہ ’’وقتاً فوقتاً‘‘ بھی شاعری کی ایک مختلف کتاب ہے۔ یہ فردیات پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک شعر دیکھئے

خود سے باتیں تمہاری کرتا ہوں

تم ملو تو کچھ اپنی بات کروں

بات شروع کی تھی کتاب کی زندگی سے، میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ کتاب زندہ ہے اور اپنی ظاہری شکل و صورت کے ساتھ زندہ رہے گی۔ بے شک دنیا نے کتب خانوں کے کتب خانے کمپیوٹرائز کر دئیے ہیں مگر جو لطف کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھنے میں آتا ہے وہ کمپیوٹر پر ممکن ہی نہیں۔ صفحہ الٹنے کا ایک اپنا مزہ ہے۔ کتاب کو سرہانے رکھ کر سونے کی کیفیت ہی کچھ اور ہے۔